امریکی عہدے داروں نے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا کہ افغانستان میں داعش کے دہشت گرد دھڑے سے درپیش خدشات سے نمٹنے کے لیے طالبان کے ساتھ بات کرنے کا امکان موجود ہے؛ حالانکہ حکام نے انتباہ کیا ہے کہ اس ضمن میں مدد کی بہت زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ، جنرل مارک ملی کے بقول ''یہ ممکن ہے''۔ انھوں نے یہ بات منگل کے روز پینٹاگان میں اخباری نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ پہلی بار نامہ نگاروں سے بات کر رہے تھے۔
ملی نے مزید کہا کہ ''ہمیں یہ نہیں معلوم کہ خود طالبان کا مستقبل کیا ہے، لیکن میں اپنے ذاتی تجربے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ گروپ ماضی میں انتہائی بے رحم رہ چکا ہے؛ آیا وہ تبدیل ہو گا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا''۔
داعش خراسان کے نام سے موسوم گروپ سے نبردآزما ہونے کے سوال پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو زیادہ اہمیت نہیں دی، حالانکہ حالیہ دنوں میں کابل سے امریکی انخلا کے مشن کے دوران امریکی فوجوں اور طالبان کمانڈروں کے مابین رابطہ موجود تھا۔
آسٹن نے کہا کہ ''ہم طالبان کے ساتھ انتہائی غیر اہم امور پر بات کرتے رہے ہیں اور یہ معاملہ محض اس نوعیت کا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ جتنے زیادہ افراد باہر نکل سکیں، نکال لیے جائیں''۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ ''اِس بات کے حق میں، میں کوئی منطقی دلیل پیش نہیں کرنا چاہوں گا''۔
بیس سالہ جنگ کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان عدم اعتماد جاری رہا، داعش خراسان کے معاملے پر یہ بات زیر غور لائی جاتی رہی ہے کہ آیا اس سلسلے میں طالبان سے تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جب انخلا کے مشن کے مراحل مکمل ہونے کے قریب تھے، کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے حوالے سے طالبان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ رابطے پر رضامندی کا اظہار واضح تھا۔ مزید برآں، امریکہ اور طالبان دونوں ہی داعش کے اس دھڑے کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کرتےہیں۔
SEE ALSO: داعش-خراسان سے طالبان حکومت کو خطرہاس سلسلے کی ایک کڑی حالیہ تاریخ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
محض ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا جب طالبان نے داعش خراسان کو ننگرہار اور کُنڑ کے صوبوں کے مضبوط ٹھکانوں سے نکال باہر کیا، جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں انہیں امریکہ سے ''انتہائی محدود پیمانے کی مدد حاصل تھی''۔
اس وقت ایک فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ''اس وقت ہم نے دولت اسلامیہ خراسان کے ساتھ لڑنے والے طالبان کے دستوں کے خلاف اپنی کارروائی روک دی تھی''۔
عہدے دار نے مزید کہا ''اور ہم نے بھی داعش خراسان کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ فضائی حملے طالبان سے رابطے میں رہ کر نہیں کیے گئے تھے''۔
لیکن اب جب کہ داعش خراسان کسی علاقے پر قابض نہیں، اور طالبان نے پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ طالبان کسی امریکی درخواست کو ماننے سے انکار کردیں۔چونکہ زمینی صورت حال انتہائی نازک ہے، اس لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، ایک امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ ''جہاں انہیں اپنا مفاد نظر آئے گا، وہ داعش خراسان کے خلاف جارحانہ اقدام کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ لیکن، ہمیں فائدہ پہنچانے کی خاطر وہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے''۔
فروری 2020ء میں امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں طالبان نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ امریکہ اور مغرب کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم، شکوک و شبہات نے اس وقت جنم لیا جب دوبارہ ملک کا کنٹرول سنبھالتے ہی انھوں نے داعش خراسان کے سرغنوں کو افغان قیدخانوں سے رہائی دی۔
امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر، جنرل کینیتھ فرینک مکنزی نے گزشتہ پیر کے روز کہا تھا کہ ''ہمارے تخمینے کے مطابق، اس وقت افغانستان میں داعش کے کٹر سخت گیر جنگجوؤں کی تعداد کم ازکم 2000 کے لگ بھگ ہے؛ جن میں یقینی طور پر وہ سرغنے بھی شامل ہیں جنھیں چند روز قبل قیدخانوں سے رہائی دی گئی ہے''۔
چند انٹیلی جنس اداروں نے یہ بھی انتباہ جاری کیا ہے کہ دشمن ہونے کے باوجود، جب طالبان کے مفاد میں ہوتا ہے وہ داعش خراسان کو اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔