انگلینڈ یا بھارت: گرین شرٹس کا فائنل میں کس سے ٹاکرا متوقع ہے؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو باآسانی شکست دے کر فائنل میں جگہ بنالی ہے جس کے بعد اب شائقینِ کرکٹ کو اس بات کا انتظار ہے کہ انگلینڈ یا بھارت میں سے کون سی ٹیم فائنل میں گرین شرٹس کے مدِ مقابل آئے گی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تاریخ میں یہ پاکستان کا تیسرا فائنل ہوگا۔ 2007 میں ہونے والے فائنل میں بھارت نے پاکستان کو زیر کیا تھا تو دو سال بعد یونس خان کی قیادت میں قومی ٹیم نے سری لنکا کو شکست دے کر ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

اس با ر بھی بابر اعظم کی قیادت میں گرین شرٹس نے فائنل میں جگہ بنائی ہے جہاں اس کا مقابلہ یا تو بھارت یا پھر انگلینڈ سےہوگا۔ بھارتی ٹیم نے ایونٹ کے گروپ میچ میں پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی تھی جب کہ انگلش ٹیم نے رواں سال ستمبر میں پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرایا تھا۔

اس کے باوجود گرین شرٹس نے ایونٹ میں جس طرح کی کرکٹ کھیلی ہے۔ اس سے حریف ٹیموں کو اتنا تو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ پاکستان کو آسان حریف سمجھنا غلطی ہو گی۔ایونٹ کا فائنل 13 نومبر کو میلبرن میں کھیلا جائے گا۔

اگر مجموعی طور پر آئی سی سی ایونٹس کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کا چھٹا فائنل ہوگا۔ 1992 میں میلبرن میں ہی کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی تھی۔ 1999 کے 50 اوور والے ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی تھی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے 2007 کا فائنل کھیلا اور 2009 کا فائنل جیتا جب کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں اس نے ایک مرتبہ فائنل تک رسائی حاصل کی اور 2017 میں ہونے والے اس ٹائٹل میچ میں بھارت کو شکست دی۔


سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی انگلینڈ اور بھارت کی ٹیموں میں سے کس کا پلڑا بھاری؟

ایڈیلیڈ میں جمعرات کو ہونے والا ورلڈ کپ سیمی فائنل بھارت اور انگلینڈ کی ٹیموں کو 35 سال قبل 1987 میں ہونے والے ورلڈ کپ کی ضرور یاددلائے گا۔ اس وقت ممبئی میں بھارتی ٹیم ٹائٹل کا دفاع کررہی تھی اور انگلینڈ کی ٹیم ے انہیں سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔


لیکن اس بار میگا ایونٹ کے فائنل تک رسائی کے لیے دونوں ٹیموں نے بہترین کارکردگی دکھائی۔انگلینڈ نے 7 پوائنٹس حاصل کرکے گروپ ون میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی جب کہ بھارت کو گروپ ٹومیں آٹھ پوائنٹس حاصل کرکےپہلا نمبر ملا۔

سیمی فائنل تک رسائی کے لیے انگلینڈ نے افغانستان، سری لنکا اور اس وقت تک ناقابلِ شکست رہنےوالی نیوزی لینڈ کو ہرایا لیکن آسٹریلیا سے میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہو جانے اور آئرلینڈ کے خلاف ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کے ذریعے میچ ہارجانے کی وجہ سے انہیں قیمتی پوائنٹس سے ہاتھ دھونا پڑے۔

دوسری جانب بھارت نے جہاں پاکستان، زمبابوے، نیدرلینڈز اور بنگلہ دیش کو شکست دی تھی وہیں انہیں گروپ اسٹیج میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سیمی فائنل میں وہ کس حکمتِ عملی سےجاتے ہیں۔ اس کا دارومدار ایڈیلیڈ کی وکٹ پر ہوگا۔



فی الحال ٹورنامنٹ میں انگلینڈ کو صرف ایک میچ میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی نیوزی لینڈ کے خلاف جو اس وقت ایونٹ سے باہر ہوچکی ہے جب کہ بھارتی ٹیم کو متعدد میچز میں مخالف ٹیم نے مشکل میں ڈالا جو بھی ٹیم ناک آؤٹ میچ میں بہتر کھیل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انگلینڈ کے پاس جوس بٹلر ہیں تو بھارت کے پاس سوریا کمار یادیو

میگا ایونٹ سے قبل بھارت اور انگلینڈ کی ٹیموں نے آسٹریلیا کا دورہ کرکے وہاں پریکٹس کی جب کہ انگلینڈ نے تو ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی کھیلی۔بھارت کی ٹیم نے آل راؤندر رویندرا جڈیجا اور فاسٹ بالر جسپرت بھمرا کی غیر موجودگی میں بہتر کارکردگی دکھائی جب کہ جونی بیئر اسٹو اور ریس ٹوپلی کے انجرڈ ہونے کے باوجود انگلش ٹیم نے شان دار کھیل پیش کیا۔

بیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں اگر بھارت کے پاس سوریا کمار یادیو اور ان فارم وراٹ کوہلی کی شکل میں جارح مزاج بلے باز ہیں تو انگلینڈ کے جوس بٹلر اور ایلکس ہیلز بھرپور فارم میں ہیں۔


بھارت کے لیے سب سے زیادہ فکر کی بات کپتان روہت شرما کا آؤٹ آف فارم ہونا ہے جب کہ انگلینڈ کے ان فارم ڈیوڈ ملر کا دورانِ ٹورنامنٹ زخمی ہونا ان کی ٹیم کے لیے کسی دردِسر سے کم نہیں۔

اگر ایونٹ کے ٹاپ بلے بازوں کی بات کی جائے تو بھارت کے وراٹ کوہلی پانچ میچوں میں 246 رنز کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز ہیں، انہوں نے 139 کے اسٹرائیک ریٹ سے اور 123 کی اوسط سے یہ رنز بنائے ہیں جو ان کے فارم میں ہونے کا ثبوت ہیں۔


اس وقت ٹورنامنٹ میں رہ جانے والی ٹیموں کے کھلاڑیوں میں سے اس فہرست میں بھارت کے سوریا کمار یادیو بھی ہیں جنہوں نے 194 کے اسٹرائیک ریٹ سے 225 رنز بنائے ہیں اور ان کی اوسط 75 رنز فی اننگز ہے۔

انگلینڈ کی جانب سے سب سے زیادہ 125 رنز ان کے اوپنر ایلکس ہیلز اور 119 رنز ان کے کپتان جوس بٹلر نے بنائے ہیں جنہیں صرف 4 اننگز ہی کھیلنے کو ملی ہیں۔

دونوں کا اسٹرائیک ریٹ 130 کے لگ بھگ ہے جب کہ اوسط تھوڑی کم، لیکن اگر سیمی فائنل میں ان دونوں کا بلا چل گیا تو بھارتی بالرز کے لیے انہیں روکنا مشکل ہو جائے گا۔

لیکن اگر بھارتی بالرز نے ان دونوں کو جلد قابو کرلیا تو انگلش ٹیم کے مڈل آرڈر کو بے بس کرنا زیادہ مشکل نہیں جو اس وقت ایونٹ میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پائے ہیں۔

انگلش بالر مارک وڈ میگا ایونٹ کے تیز ترین بالر قرار، بھارت کا میڈیم پیسرز پر انحصار

آسٹریلیا میں جاری ایونٹ میں 30 سے زائد مرتبہ گیندکو 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکنے والے مارک وڈ انگلش کیمپ کا حصہ ہیں اور اگر ان کی تیز رفتاری نے بھارتی بلے بازوں کو پریشان کیا تو انگلینڈ کو فائدہ ہوگا۔


لیکن ایونٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے انگلش بالرز میں ان کا پہلا نمبر نہیں۔ یہ اعزاز انگلش پیسر سیم کرن کو حاصل ہے جنہوں نے صرف 4 میچوں میں 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ایونٹ کی ایک اننگز میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا کارنامہ بھی صرف انہوں نے ہی انجام دیا ہے۔


بھارت کے اردشیپ سنگھ نے بھی 10 ہی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا لیکن اس کے لئے انہیں ایک میچ زیادہ ملا، مارک وڈ نو، ہاردیک پانڈیا آٹھ اور محمد شامی اور روی چندن ایشون چھ وکٹوں کے ساتھ دوسرے کامیاب بالرز ہیں۔