امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شام سے امریکہ کے تمام فوجیوں کو واپس بلانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور کچھ امریکی فوجی ملک کے مشرقی علاقے میں موجود تیل کی تنصیبات کی حفاظت کی خاطر وہاں موجود رہیں گے۔
تاہم, بعض ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودگی کا مقصد تیل کی آمدنی پر قبضہ کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’ہو سکتا ہے کہ ہمیں تیل کیلئے لڑنا پڑے۔ ایسا کرنا بالکل ٹھیک ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بھی تیل حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔ تاہم, ایسی صورت میں اسے ہم سے لڑنا ہوگا۔ لیکن وہاں بہت بڑی مقدار میں تیل موجود ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ امریکہ کی بڑی تیل کی کمپنی ایکسون موبل کے سپرد یہ کام کر سکتے ہیں کہ وہ وہاں تیل کی پیداواری گنجائش کو جدید بنانے کیلئے کام کرے، تاکہ آمدن کو وسعت دی جا سکے۔
واشنگٹن میں قائم مرکز برائے نیو امریکن سیکورٹی میں مشرق وسطیٰ سے متعلق محقق نکولس ہیراس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا یہ بیان تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے جس کا براہ راست فائدہ امریکہ کے دشمنوں کو پہنچ سکتا ہے، جن کا کہنا ہے کہ علاقے میں امریکہ کی مداخلت کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
نکولس ہیراس کہتے ہیں کہ شام کے صدر بشارالاسد اور روس صدر ٹرمپ کے اس بیان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے مشرقی علاقے میں امریکی فوجیوں پر حملے کر سکتے ہیں اور یوں وہ امریکی فوجیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ترکی کی سرحد سے متصل شامی علاقے سے بیشتر امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں کم ہوتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ کو ممکنہ طور پر بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ترکی اور روس نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے۔ شام میں روس کے سفیر ایلیگزانڈر لیکرینٹئیو نے منگل کے روز کہا ہے کہ شام میں موجود تمام تیل کی تنصیبات کو ہر صورت شامی حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہئیے۔ اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی کے سوا شام میں دلچسپی رکھنے والے باقی تمام فریق شام کی تیل کی آمدن پر قبضہ کرنے کے متمنی ہیں۔
ایٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر لوری بلینک کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ شام کی تیل کی تنصیبات میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اسے شامی حکومت کی رضامندی درکار ہو گی۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ محقق ڈینئل سرور کہتے ہیں کہ شام میں امریکہ کی اس انداز کی مداخلت سے امریکی کانگریس کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہو گی، کیونکہ بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے حکومت کو کانگریس کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شام میں امریکی مداخلت کیلئے کانگریس سے منظوری دہشت گردوں کے خلاف فوج کے استعمال پر بنیاد پزیر تھی جس کا مقصد مذکورہ تیل کی تنصیبات کو داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے محفوظ رکھنا تھا۔
2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے قبل شام 385,000 بیرل یومیہ کم معیار کا خام تیل پیدا کرتا تھا جس میں سے ایک لاکھ بیرل ان تیل کی تنصیبات سے پیدا ہوتا تھا جن پر صدر ٹرمپ ممکنہ طور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ یہ پیداوار 2016 میں کم ہو کر محض 40,000 بیرل یومیہ رہ گئی تھی۔ یہ دنیا کی تیل کی کل پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔