جب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے پاورفل کرکٹ کمیٹی تشکیل دی ہے، ملک میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر یہ کمیٹی کیا کام کرے گی؟
چار رکنی کمیٹی سابق کرکٹر محسن حسن خان کی قیادت میں کام کرے گی جب کہ سابق کپتان اور آل راونڈر وسیم اکرم، سابق کپتان مصباح الحق اور سابق خاتون کرکٹر عروج ممتاز شامل ہیں۔
اس کمیٹی کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟ کیا اس کی ذمہ داریوں اور ٹیم مینیجمنٹ کی ذمہ داریوں میں ٹکراو تو نہیں آئے گا؟ کرکٹ کمیٹی اس سے پہلے آج تک کیوں نہں بنائی گئی؟ وائس آف امریکہ نے یہ سوالات کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن حسن خان کے سامنے رکھے ہیں اور جاننے کی کوشش کی ہے اس کمیٹی کا مینڈیٹ کیا ہو گا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان نے، جو پاکستان کی قومی ٹیم کے سابق کوچ اور چیف سلیلکٹر رہ چکے ہیں، بتایا کہ کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ احسان مانی قومی اور بین الاقوامی کرکٹ مینیجمنٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ وہ نہ صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سربراہ رہے ہیں بلکہ وہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں کرکٹ ماڈل کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ کے مطابق یہ کرکٹ کمیٹی ملک کے اندر کرکٹ کے فروغ سے لے کر قومی ٹیم کی پرفارمنس تک ان کو مشورے دیتی رہے گی۔
تو کیا آسٹریلیا کی طرز پر علاقائی کرکٹ پروان چڑھانا مقصود ہے؟ اس سوال کے جواب میں محسن حسن خان نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ سابق کپتان اور موجودہ وزیراعظم عمران خان آسٹریلیا کی طرز پر ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کی تائید کرتے آئے ہیں۔ جہاں بین الاقوامی کھلاڑیوں اور ڈومیسٹک کھلاڑیوں میں کیلیبر (اھلیت ) کا نہیں صرف کپپ کا فرق ہوتا ہے۔ تاہم محسن خان کے بقول بینکوں اور دیگر اداروں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی۔ ان کی خدمات کو تسلیم کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ جلد ایک میٹنگ ہو گی۔ مگر یہ درست ہے کہ جب شہروں اور ریجن کی سطح پر مقابلے ہوتے ہیں تو کرکٹ کو نیا جوش و خروش اور ٹیلنٹ ملتا ہے۔ پاکستان پریمئر لیگ اس کی ایک مثال ہے۔
کرکٹ کمیٹی اور ٹیم مینیجمنٹ یا سلیلکشن کمیٹی کے اختیارات میں ٹکراو بھی تو ہو سکتا ہے اور کوچ مکی آرتھر میڈیا اطلاعات کے مطابق محسن خان کی بطور کمیٹی سربراہ تقرری پر اعتراض بھی کر چکے ہیں؟ اس پر محسن حسن خان نے کہا کہ ٹکراو ہو گا۔ ٹیم مینیجمنٹ اور سیلکشن کمیٹی بالکل خود مختار ہیں تاہم اگر ڈسپلن کا مسئلہ ہو گا یا پھر ایشیا کپ جیسی بری پرفارمنس ہو گی تو سیلکشن پر سوال تو اٹھیں گے۔ ہم بالکل بات کریں گے۔ اس جواب پر پھر پوچھا گیا کہ یہی تو ٹکراو ہے۔ ان کہنا تھا کہ ٹکراو نہیں ہو گا۔
محسن حسن خان میڈیا پر ببانگ دہل کہتے رہے ہیں کہ وہ کیسی ایسے کھلاڑی کے ساتھ ٹیم کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا دامن ان کے بقول داغدار ہو۔ پاورفل کرکٹ کمیٹی میں لیجنڈ آل راونڈر وسیم اکرم بھی شامل ہیں مگر وسیم اکرم کے خلاف جسٹس قیوم کا ایک فیصلہ موجود ہے جو ان کو کرکٹ بورڈ میں کوئی بڑا عہدہ دینے کی ممانعت کرتا ہے۔ اس سوال پر کہ وہ وسیم اکرم کے ساتھ کیسے کام کریں گے؟ محسن خان نے کہا کہ احسان مانی نے ان سے اس بارے میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ جسٹس قیوم کے فیصلے کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں کئی جھول ہیں۔
’’ پچھلے کچھ عرصے میں مجھے تین چار بار کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ میں نے انکار کر دیا کہ بورڈ میں ٹینٹڈ (داغدار) لوگ ہیں۔ احسان مانی جب آئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا مجھ پرکتنا بھروسہ کرتے ہو، کہا جی بالکل آپ بہت دیانتدار اور محنتی شخصیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر جسٹس قیوم رپورٹ کے بارے میں میں کہہ رہا ہوں کہ ہم نے اس کا جائزہ لیا ہے اس میں صداقت کم مل رہی ہے۔ اس میں کوئی مضبوط باتیں نہیں ہیں۔ اس میں کئی شک و شبہات ہیں۔ اس میں بہت جھول ہیں۔ آپ کام کیجیے۔ آپ کو کبھی گلہ نہیں ہو گا۔ میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ آج جو کچھ بھی ہوں پاکستان کی وجہ سے ہوں اور پاکستان کرکٹ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔