سندھ کے معروف سیاسی شیرازی خاندان نے انتخابات سے ایک ماہ قبل پیپلزپارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
سابق حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی اپنے گڑھ یعنی صوبہ ِسندھ میں سیاسی مشکلات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سندھ کے معروف سیاسی شیرازی خاندان نے انتخابات سے ایک ماہ قبل پیپلزپارٹی کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
شیرازی خاندان ٹھٹھہ کی سیاست میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ماضی میں پیپلزپارٹی کا حصہ رہا ہے۔ اس خاندان کے امیدوار قومی اور صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔
شیرازی خاندان گیارہ مارچ کو صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپورکی کاوشوں سے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوا تھا لیکن منگل کو اختلافات کے باعث پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا گیا۔
ٹھٹھہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفقت شاہ شیرازی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر کیا اور اب وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔
این اے دو سو سینتیس سے ریاض شاہ شیرازی جبکہ پی ایس چوراسی سے شیرازی گروپ کے سربراہ اعجاز شیرازی الیکشن لڑیں گے۔
شیرازی برادران نے گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ق کا ساتھ دیا تھا اور ٹھٹھہ کی نشستوں میں سے ایک پر فتح حاصل کی تھی۔ حلقہ دو سو سینتیس سے سید ریاض حسین شیرازی کو پیپلزپارٹی کے عبدالواحد سومرو سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبدالوحد نے پچیاسی ہزار ایک سو اڑتیس اور عبدالوحد نے چھپن ہزار باون ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ حلقہ دو سو اڑتیس سے ایاز علی شیرازی نے چھیتر ہزار آٹھ سو بارہ ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کے ارباب وزیر کو شکست دی تھی جنہوں نے باسٹھ ہزار ایک سو پچھہتر ووٹ لیے تھے۔
شیرازی برادران کے ہمراہ پیپلزپارٹی کے رہنما غلام قادر ملکانی نے بھی پیپلزپارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور شیرازی خاندان کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کے امیدوار اویس مظفر ٹپی کے خلاف انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ماروی میمن بھی کانٹے کے مقابلے میں شامل
حلقہ دو سو سینتیس سے مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما ماروی میمن بھی انتخابات لڑ رہی ہیں۔ ایک روز پہلے ہی ٹھٹھہ سے پیپلزپارٹی کے اہم رہنما اور روحانی پیشوا سید غلام رحمانی جیلانی اور سید زین جیلانی نے بڑی تعداد میں مریدین کے ہمراہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کااعلان کیا تھا۔ اس تمام تناظر میں ٹھٹھہ میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
’پی پی والے ‘دوسری جماعتوں میں شامل
ایک روز پہلے ہی نوابشاہ سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے سابق رکن سندھ اسمبلی عنایت رند نے بھی ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جبکہ کراچی میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے نبیل گبول بھی ایم کیو ایم میں شامل ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کے کئی رہنما مسلم لیگ فنکشنل میں بھی شامل ہوئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس مرتبہ پیپلزپارٹی انتخابی مہم میں بھی دہشت گردی کے خطرات کے پیش ِنظر انتہائی محتاط نظر آ رہی ہے اور ان حالات میں کئی اہم رہنماؤں کا ساتھ چھوڑ جانا اور دیگر جماعتوں کا اس کے ہوم گراؤنڈ پر مقابلے کے لئے متحد ہونا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔
شیرازی خاندان ٹھٹھہ کی سیاست میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ماضی میں پیپلزپارٹی کا حصہ رہا ہے۔ اس خاندان کے امیدوار قومی اور صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔
شیرازی خاندان گیارہ مارچ کو صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپورکی کاوشوں سے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوا تھا لیکن منگل کو اختلافات کے باعث پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا گیا۔
ٹھٹھہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفقت شاہ شیرازی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر کیا اور اب وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔
این اے دو سو سینتیس سے ریاض شاہ شیرازی جبکہ پی ایس چوراسی سے شیرازی گروپ کے سربراہ اعجاز شیرازی الیکشن لڑیں گے۔
شیرازی برادران نے گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ق کا ساتھ دیا تھا اور ٹھٹھہ کی نشستوں میں سے ایک پر فتح حاصل کی تھی۔ حلقہ دو سو سینتیس سے سید ریاض حسین شیرازی کو پیپلزپارٹی کے عبدالواحد سومرو سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبدالوحد نے پچیاسی ہزار ایک سو اڑتیس اور عبدالوحد نے چھپن ہزار باون ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ حلقہ دو سو اڑتیس سے ایاز علی شیرازی نے چھیتر ہزار آٹھ سو بارہ ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کے ارباب وزیر کو شکست دی تھی جنہوں نے باسٹھ ہزار ایک سو پچھہتر ووٹ لیے تھے۔
شیرازی برادران کے ہمراہ پیپلزپارٹی کے رہنما غلام قادر ملکانی نے بھی پیپلزپارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور شیرازی خاندان کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کے امیدوار اویس مظفر ٹپی کے خلاف انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ماروی میمن بھی کانٹے کے مقابلے میں شامل
حلقہ دو سو سینتیس سے مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما ماروی میمن بھی انتخابات لڑ رہی ہیں۔ ایک روز پہلے ہی ٹھٹھہ سے پیپلزپارٹی کے اہم رہنما اور روحانی پیشوا سید غلام رحمانی جیلانی اور سید زین جیلانی نے بڑی تعداد میں مریدین کے ہمراہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کااعلان کیا تھا۔ اس تمام تناظر میں ٹھٹھہ میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
’پی پی والے ‘دوسری جماعتوں میں شامل
ایک روز پہلے ہی نوابشاہ سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے سابق رکن سندھ اسمبلی عنایت رند نے بھی ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جبکہ کراچی میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے نبیل گبول بھی ایم کیو ایم میں شامل ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کے کئی رہنما مسلم لیگ فنکشنل میں بھی شامل ہوئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس مرتبہ پیپلزپارٹی انتخابی مہم میں بھی دہشت گردی کے خطرات کے پیش ِنظر انتہائی محتاط نظر آ رہی ہے اور ان حالات میں کئی اہم رہنماؤں کا ساتھ چھوڑ جانا اور دیگر جماعتوں کا اس کے ہوم گراؤنڈ پر مقابلے کے لئے متحد ہونا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔