افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان افغان تنازع کو شریعت کے بجائے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔ افغان حکومت کے علاوہ کوئی بھی طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کر سکتا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ہفتے کی صبح شمال مشرقی صوبے خوست میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کیا ہے۔ نئے ایئر پورٹ کا افتتاح ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ملک کے شمال میں طالبان تیزی سے مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں۔
افغانستان کے صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اشرف غنی نے افتتاح کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے خوست پہنچنے والی پرواز کے ذریعے آنے والے مسافروں کو خوش آمدید بھی کہا۔
افغان صدر نے صوبے میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے علاوہ دورے کے دوران مقامی رہنماؤں سے ملاقات بھی کی ہے۔
صدر اشرف غنی نے نائب صدر امراللہ صالح کے ساتھ مقامی عمائدین کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ خطاب میں انہوں نے افغانستان میں جمہوری حکومت کے تسلسل کی یقین دہانی بھی کی۔
افغان صدر نے خطاب کے دوران سوال کیا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں؟
انہوں نے طالبان کے سامنے یہ سوال بھی رکھا ہے کہ کیا وہ افغانستان کے لیے لڑ رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان دوسروں کے کنٹرول میں چلا جائے؟
اشرف غنی کا مزید کہنا تھا کہ اگر طالبان افغانستان سے محبت کرتے ہیں تو وہ وعدہ کریں کہ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کیا۔ وہ وعدہ کریں کہ وہ افغانستان کے پانی کو فروخت نہیں ہونے دیں گے۔
افغان صدر نے طالبان سے یہ وعدہ بھی چاہا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کام کرنے کو قبول نہیں کریں گے۔
طالبان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں وہ رہتے ہیں۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اگر افغان شہری ہلاک ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ کس کو ہو گا؟
افغان صدر کے بقول طالبان نے صوبہ قندھار میں قائم ارگنداب وادی میں تین پل تباہ کر دیے ہیں جن کی تعمیر میں پر پانچ کروڑ ڈالر لاگت آئی تھی۔ اگر وہ مستقبل کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو آج ہی کیوں نہ کیا جائے؟
ان کا کہنا تھا کہ سب کو عراق، شام اور لبنان سے سیکھنا چاہیے۔
اشرف غنی نے طالبان سے کہا کہ وہ بیٹھیں اور اسلامی شریعت کے مطابق تنازع کا حل نکالیں۔
خوست میں خطاب میں افغان صدر کا کہنا تھا کہ اگر طالبان جنگ کا چناؤ کرتے ہیں تو وہ خود جنگ کے ذمہ دار ہوں گے۔ افغانوں نے میدان جنگ میں جنگ نہیں ہاری ہے۔ طالبان بس افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے افغان خواتین کو یقین دہانی کرائی کہ حالات ایک بار پھر سے خرابی کی طرف نہیں جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنہوں نے حکومت کو اندرونی طور پر نقصان پہنچایا انہیں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ خوست ایئر پورٹ افغان نیشنل ایوی ایشن اتھارٹی کے بجٹ سے تعمیر کیا گیا ہے اور افتتاح کے بعد خوست سے متحدہ عرب امارات کے لیے پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے بعد سیکیورٹی کی صورت حال کشیدہ ہے اور طالبان نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ 85 فی صد افغانستان ان کے کنٹرول میں ہے۔
روس کے دورے کے موقعے پر طالبان مذاکرات کار شہاب الدین دلاور نے دیگر طالبان رہنماؤں عبد اللطیف منصور اور سہیل شاہین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے 85 فی صد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ جس میں ملک کے 398 میں سے 250 اضلاع شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہاب الدین دلاور کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان میں انتظامی مراکز پر حملے کرنے کے لیے آزاد ہیں کیوں کہ انہوں نے امریکہ سے ان پر حملہ نہ کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔
البتہ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کسی صوبے کے دارالحکومت پر بزور قبضہ نہیں کریں گے۔
شہاب الدین دلاور نے 2020 میں امریکہ سے ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں افغان حکومت فریق نہیں تھی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے تین صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں افغانستان سے غیر ملکی اور امریکی افواج کے انخلا کا خاکہ اور یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ افغان سر زمین امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ البتہ اس میں جنگ بندی شامل نہیں ہے بلکہ اس نکتے کو مستقبل کے بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
جمعے کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں یہ پریس کانفرنس اس وقت کی جا رہی تھی جب شمالی اور مغربی افغانستان میں طالبان کی شدید حملوں کے باعث افغان فورسز کو مشکلات کا سامنا ہے۔
شمالی افغانستان میں طالبان کے حملوں کے بعد رواں ہفتے ایک ہزار سے زائد افغان فوجی اہل کار تاجکستان فرار ہوگئے تھے۔
افغان حکام نے طالبان کے قبضے میں جانے والے اضلاع واپس لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور شمالی افغانستان میں کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکڑوں کمانڈو تعینات کیے ہیں۔
شمالی افغانستان میں جھڑپوں کے باعث صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں روس کو اپنا قونصل خانہ بند کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کے مخالف گروپس کی جانب سے بھرپور مزاحمت کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کا افغانستان کے 85 فی صد علاقوں پر کنٹرول کا دعوٰی امریکہ کے صدر بائیڈن کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل انہوں نے نائن الیون حملوں کی بیسویں برسی کے موقعے پر 11 ستمبر کو انخلا مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
SEE ALSO: 'طالبان کی خواتین کی آزادی اور حقوق کے بارے میں حکمتِ عملی مبہم ہے'صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں۔
طالبان کی جانب سے صدر بائیڈن کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا تھا جب کہ افغان حکومت کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔