امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پولیس کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند برے اہلکاروں کی وجہ سے پوری پولیس فورس کو مورد الزام ٹھیرانا درست نہیں ہے۔
جمعرات کو ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ "ہر ادارے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ ان چند لوگوں کی بنیاد پر سب کو برا نہیں کہہ سکتے۔"
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 46 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد امریکہ میں مظاہرے جاری ہیں اور پولیس پر نسلی تعصب کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے اُمیدوار ہیں اور امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری اُن کے انتخابی منشور کا اہم جزو ہے۔
اپنی تقریر میں صدر نے کہا کہ نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ لیکن ہم لاکھوں امریکیوں پر نسلی تعصب کا لیبل لگا کر اس جانب کوئی پیش رفت نہیں کر سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے بعد سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے۔ اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی صورتِ حال میں خرابی کا ذمہ دار صدر ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کو قرار دے رہی ہے۔
البتہ حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی کے رہنما اس معاملے پر محتاط ردعمل دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پر بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ نسلی تعصب کو ہوا دے کر دائیں بازو کے ووٹرز کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جمعرات کو ڈیلس میں خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں نسلی تعصب کے واقعات کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لینا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ میں مقیم اقلیتوں کو صحتِ عامہ کی سہولتیں اور اُنہیں کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں احتجاج کا سلسلہ ایک ایسے وقت جاری ہے جب کرونا وائرس کی وجہ سے امریکہ کو معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
اپنے خطاب کے بعد امریکی ٹی وی 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں صدر نے کہا کہ اُنہوں نے جارج فلائیڈ کی گرفتاری کی ویڈیو موبائل فون پر دیکھی جو بلاشبہ 'خوفناک' تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اس معاملے پر امریکی عوام کے تحفظات دُور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں ایسے واقعات کے بعد ماضی کے صدور کے اقدامات کا موازنہ صدر ٹرمپ کے ردعمل سے کیا جا رہا ہے۔
صدر کے مخالفین کا یہ موقف ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں صدر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے متنازع بیانات دے کر لوگوں کے جذبات مشتعل کرتے رہے ہیں۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نسل پرستی اور پولیس کے رویے سے متعلق کسی قسم کی بامقصد گفتگو سے گریز کر رہے ہیں۔
جمعرات کو ایک بیان میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس معاملے میں امریکہ کو مزید تقسیم کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا امریکی ریاست ٹیکساس کا دورہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب قوم کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ فوٹو سیشن کرانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
ڈیلس روانگی سے قبل صدر ٹرمپ نے ڈیمو کریٹک پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ امریکی ریاست واشنگٹن میں اس کے رہنماؤں نے احتجاج کی آڑ میں سیاٹل شہر کو یرغمال بنا لیا ہے۔
امریکہ میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد پولیس اصلاحات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
بدھ کو وائٹ وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے مسودے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ البتہ ٹرمپ حکومت نے پولیس کو حاصل استثنیٰ کم کرنے یا محدود کرنے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔