امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں قرآن کی بے حرمتی پر گرجا گھر اور مسیحیوں کے گھر نذرِ آتش کیے جانے پر تشویش ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل نے معمول کی پریس بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا،"ہم سب کے لیے پرامن آزادئ اظہار اور عقائد اور مذہب کی آزادی کے حق کی حمایت کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، ہمیں مذہب کی بنیاد پر شروع ہونے والے تشدد پر ہمیشہ تشویش رہی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ تشدد یا تشدد کی دھمکی کبھی بھی اظہار کی قابلِ قبول شکل نہیں رہی ، ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کے الزامات کی مکمل چھان بین کریں اور تمام لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کریں۔ "
جڑانوالہ میں مسیحی املاک کو نقصان اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات
بدھ کے روز پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد گرجا گھروں سمیت مسیحی املاک کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات کے دوران پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
بدھ کی صبح شروع ہونے والا احتجاج کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس دوران نہ صرف مسیحیوں کے گھروں کو جلایا گیا بلکہ وہاں لوٹ مار بھی کی گئی جب کہ گرجا گھروں کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔
اس دوران یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ پولیس اہل کار یہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا دیکھتے رہے اور مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ان واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس افسران کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مشتعل ہجوم سے کیسے نمٹا جائے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ پولیس حکام اس نوعیت کے حساس معاملات سے نمٹنے کے لیے پولیس کی تربیت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن ایسے معاملات میں پولیس کی کارکردگی پر ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق فیصل آباد کے تھانوں میں ایلیٹ فورس، ایگل اسکواڈ جب کہ پولیس لائنز میں سینکڑوں کی تعداد میں ریزرو فورس بھی موجود ہوتی ہے۔ دوسری جانب ضلع اور تحصیل کی سطح پر امن کمیٹیاں بھی قائم کی جاتی ہیں۔
جڑانوالہ میں مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی
پاکستان مسیحی اتحاد کے صدر عمانوئیل اطہر جولیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کلیدی عہدے پر اگر کوئی غیر مسلم تعینات ہو جائے تو اسے معنی خیز سمجھا جاتا ہے۔
اُن کے بقول ایسے میں جڑانوالہ جیسی اہم تحصیل میں مسیحی اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح کی تعیناتی پر مبینہ طور پر ایک مذہبی جماعت کے کچھ کارکنوں کو اعتراض تھا۔
انہوں نے کہا کہ مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ ہوئی، مگر انہیں فوری عہدے سے ہٹا دیا گیا جو سراسر ناانصافی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ان مسیحیوں کا کیا قصور ہے جن کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور قیمتی سامان کو لوٹ لیا گیا، جوان مسیحی بچیاں اپنی جانیں اور عزتیں بچاتے ہوئے ننگے پاؤں ننگے سر گھروں سے باہر بھاگیں۔ "
عمانوئیل نے مطالبہ کیا کہ جڑانوالہ کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے جس میں اقلیتوں کے مجاز نمائندگان بھی شامل ہوں۔
جڑانوالہ کا پاکستان کی بڑی تحصیلوں میں شمار ہوتا ہے جس کی آبادی 16 لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 97 فی صد مسلم آبادی ہے۔ مسیحیوں کی تعداد ڈھائی فی صد ہے جو کہ لگ بھگ 35 سے 40 ہزار نفوس بنتی ہے۔
جڑانوالہ کے مسیحی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش محنت مزدوری ہے۔ کئی مسیحی ہنرمند بھی ہیں جو فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرتے ہیں جب کہ کچھ سرکاری ملازمت بھی کرتے ہیں۔
'یہاں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا'
علاقے کے رہائشی مقامی صحافی نسیم شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فیصل آباد میں حالیہ کچھ برسوں میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے بقول اس کے اثرات اردگرد کی تحصیلوں تک بھی پہنچ گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "جڑانوالہ میں مسیحی رہائشی بستیاں ہیں جہاں اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس واقعہ نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔"
نسیم شاہ نے کہا کہ جڑانوالہ میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے بچے اکٹھے اسکولوں اور کالجز میں پڑھتے ہیں۔ وہ اکٹھے کھاتے پیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ فیصل آباد اور جڑانوالہ کا امن تباہ کرنے میں کون لوگ ملوث ہیں اور کشیدگی کا فائدہ کسے پہنچا ہے۔
وسطی پنجاب میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ
پنجاب میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں جن میں ملوث افراد زیادہ تر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سیالکوٹ میں تین دسمبر 2021 کو ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
پریانتھا کمارا سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور جنرل مینیجر کام کرتے تھے۔
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں 31 جولائی 2009 کو سات مسیحیوں کو زندہ جلانے اور 60 گھروں کو لوٹ کر آگ لگانے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔
اس واقعے میں 17 نامزد اور 800 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن متاثرین آج تک انصاف نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں جولائی 2014 کو توہینِ مذہب کے الزام میں احمدیوں کے پانچ گھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا جس کے باعث تین احمدی ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک 55 سالہ خاتون اور ان کی دو کمسن پوتیاں شامل تھیں۔
نومبر 2014 میں پنجاب کے شہر قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے شہزاد مسیح اور شمع کو بے دردی سے قتل کرکے لاشیں جلا دی گئی تھیں۔
لاہور کے علاقے جوزف کالونی میں سن 2013 میں توہینِ مذہب کے الزام پر مسیحی بستی جلائی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں ملوث 115 ملزمان کو ناکافی گواہوں اور عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔