پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور ہر سال کی طرح یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟
ایک سال کے دوران پاکستان کی میڈیا انڈسٹری شدید دباؤ کا شکار رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کارکن صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا جب کہ میڈیا ادارے بھی سنسر شپ کا شکار رہے ہیں۔ صحافتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ سب اچانک ہوا یا عرصے سے اس کی منصوبہ بندی جاری تھی؟
جبری برطرفیوں کے رجحان میں اضافہ
صحافتی تنظیموں کے عہدیدراوں کے مطابق حالیہ عرصے میں پاکستان میں لگ بھگ دو ہزار صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ صرف کراچی سے پانچ سو میڈیا ورکرز کو فارغ کیا گیا۔
جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف اور رکن پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس فہیم صدیقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے۔ ان کے بقول میڈیا بہت آزاد ہو چکا تھا۔ سچ بولنے لگا تھا۔ اسے روکنے کے لیے پہلے اشتہارات بند کیے گئے۔ اور پھر ایسا ماحول بنا دیا گیا جس کے تحت مالکان نے ملازمتیں ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
فہیم صدیقی کے مطابق اب یہ حالات ہیں کہ نوکریوں سے نکالے جانے والے صحافی اپنے حق کے لیے بات کرنے سے بھی خوفرزہ ہیں۔ تاہم صحافتی تنظیمیں ان زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہیں لیکن حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
صحافت پر قدغن ریاستی پالیسی یا کچھ اور؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ریاستی اداروں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ آزاد میڈیا ان کے بیانیے کی پیروی نہیں کر رہا۔ اسی وجہ سے حالیہ کچھ عرصے میں میڈیا پر کنٹرول مزید سخت کیا گیا ہے۔
بی بی سی کے کالم نویس محمد حنیف کے مطابق موجودہ حالات میں میڈیا کا پرانا معاشی ماڈل فرسودہ ہو چکا ہے۔ اب یہ ماڈل حالات سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہا جس کا نتیجہ نوکریوں میں کمی اور میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں میں تاخیر کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔
محمد حنیف کے مطابق حکومتی اور ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ ان کا متعین کردہ بیانیہ میڈیا فالو کرے۔ صورت حال یہ ہے کہ ریاستی ادارے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ چینلز کے اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں۔ پیمرا کے ذریعے ان پر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔
محمد حنیف کے مطابق ریاستی اداروں کی صحافتی آزادیوں پر مداخلت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ناپسندیدہ صحافیوں کو نوکری نہ دینے کا بھی دباؤ ڈالتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی کریک ڈاؤن جاری ہے
محمد حنیف کے مطابق میڈیا اداروں پر دباؤ کی وجہ سے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کر لیتے تھے۔ لیکن پاکستان میں اب سوشل میڈیا پر بھی قدغنیں لگ رہی ہیں۔
انہوں نے سینئر صحافی شاہزیب جیلانی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک ٹوئٹ پر ایف آئی اے نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر متحرک بلاگرز کو گرفتار اور غائب کیا گیا۔ یہ سب ایسے ہی نہیں ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کچھ لوگوں نے بیٹھ کر یہ پالیسی بنائی ہو گی۔
محمد حنیف کے مطابق 'ڈان لیکس' کے بعد میڈیا پر پابندیوں میں تیزی آئی۔ ریاستی اداروں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اب میڈیا اور سوشل میڈیا پر کنٹرول ضروری ہے۔
مثبت رپورٹنگ کیسے کی جائے؟
نامور صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مثبت اور منفی رپورٹنگ کچھ نہیں ہوتی۔ رپورٹر کا کام ہوتا ہے کہ وہ خبر حقائق کی بنیاد پر دے۔
مظہر عباس کے مطابق صحافتی برادری کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔ اگر ہم صحافتی اُصولوں سے ہٹ کر کام کریں گے تو اداروں کو میڈیا پر تنقید کا موقع ملے گا۔
مطہر عباس کا کہنا تھا کہ 2008 میں لاہور ہائی کورٹ میں صحافیوں سے متعلق شکایات کے لیے 'میڈیا کمشن' بنانے کی تجویز دی تھی۔ اس کے تحت سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں یا عام لوگوں کو بھی میڈیا سے شکایت ہو تو اس کمشن کے ذریعے ان کا ازالہ ممکن تھا۔
مظہر عباس نے بتایا کہ تجویز یہ تھی کہ کمشن کا سربراہ ایک ریٹائرڈ جج ہو اور اس میں میڈیا کے غیر جانبدار افراد کی نمائندگی رکھی جائے تاکہ کسی کو جانبداری کی شکایت نہ ہو۔ جب کہ ہتک عزت کے قانون کو فعال بنانے کی تجاویز بھی دی گئیں تھیں۔
صحافتی تنظیموں کی نگرانی ہو رہی ہے
کراچی یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری محمد عارف خان کا کہنا ہے کہ نوکریوں سے نکالے گئے صحافیوں کےحق میں احتجاجی مظاہروں میں بھی دم نہیں رہا۔ ماضی میں حکومتیں ایسے احتجاج کو سنجیدہ لیتی تھیں تاہم اب نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن جماعتیں بھی صحافیوں کے ساتھ نہیں ہیں۔
محمد عارف خان نے بتایا کہ حال ہی میں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار کراچی پریس کلب میں داخل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے صحافی محسوس کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ سب کس کے اشاروں پر ہو رہا ہے لیکن بات کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔
کیا بہتری کی امید ہے؟
محمد حنیف کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ کوئی بہتری نہیں دیکھ رہے۔ انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا کہ میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہے نہ ہی ہم نے کسی کو روکا ہے۔
لیکن پھر اسی پریس کانفرنس میں انھوں نے حامد میر کی تجویز کو رد کیا جس میں انہوں نے پشتون تحفظ تحریک کے نمائندوں کو ٹاک شوز میں بلانے کی بات کی تھی۔
مظہر عباس کے مطابق جب تک صحافتی برادری میں اتفاق نہیں ہو گا، یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ صورت حال یہ ہے کہ میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیموں کے الگ الگ گروپ ہیں۔ ایسے میں بہتری کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے۔