امریکی میڈیا ادارے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) نے ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 180 سے زیادہ صحافیوں کو، جن میں وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے صحافی بھی شامل ہیں، بظاہر فوجی سطح کے ایک جدید نگرانی کے ایپ(سپائی ویئر) کا ہدف بنایا گیا ہے۔
یو ایس اے جی ایم کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق ادارے کی چیف ایگزیکٹو آفیسر، کیلو چاؤ نے کہا ہے کہ صحافیوں کی نجی گفتگو کو کسی بھی طریقے سے ہدف بنانا قابل قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خلاف ورزی کو لازمی طور پر روکنا چاہیے اور صحافیوں کی سیکیورٹی کو لازمی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
میڈیا اداروں کے ایک کنسورشیم نے تفتیش کے بعد کہا ہے کہ حکومتوں کے لیے دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کی غرض سے بنائے جانے والے اس سپائی ویئر 'پیگا سس پراجیکٹ' کو صحافیوں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، کاروباری اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری افسروں کے سمارٹ فونز ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ سپائی ویئر ایک اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ نے تیار کیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ نے، جو اس کنسورشیم کا حصہ ہے، اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جن صحافیوں کو ہدف بنایا گیا ہے اس میں سے کچھ کا تعلق وائس آف امریکہ سے ہے۔ اس کے علاوہ منظم جرم اور کرپشن سے متعلق رپورٹنگ کے گروپ 'آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ' کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کی حکومت اس سافٹ ویئر کو سینکڑوں مقامی سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کی نگرانی کے لیے استعمال کرتی رہی ہے، جن میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کے سابقہ نمائندے بھی شامل ہیں۔ ان میں آر یف ای/آر ایل کی سابقہ بیورو چیف خدیجہ اسماعلیہ اور ایک انتہائی معروف تحقیقی صحافی کے نام بھی ہیں۔
اس تفتیش کے لیے پیرس میں قائم صحافت سے متعلق ایک غیر منافع بخش گروپ 'فاربیڈن اسٹوریز' نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکیورٹی لیب کی تکنیکی مدد کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
یو ایس اے جی ایم کی سی ای او کیلو چاؤ کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی صحافیوں کو اپنا کام بہتر بنانے میں مدد کے لیے استعمال ہونی چاہیے نہ کہ اسے ان کی جاسوسی اور انہیں ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔