|
25 فروری کو، گلوب آئی نیوز، کے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود نے سعودی خواتین سےیہ کہا ہے کہ انہیں اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادی ہے۔
گلوبل آئی نیوز کی اس پوسٹ میں، جسے 80 لاکھ سے زیادہ افراد نے دیکھا تھا شہزادہ سلمان کی تصویر، سیاہ برقعوں میں ملبوس خواتین کے ایک گروپ کی تصویر کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
پوسٹ کے الفاظ تھے: "سعودی شہزادہ سلمان: اب سے صرف سعودی عرب کی خواتین ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ سعودی خواتین کیا لباس پہنیں گی۔"
یہ ایک گمراہ کن پوسٹ ہے۔
پولی گراف انفو کو سعودی عرب کے ولی عہد کا کوئی ایسا حالیہ انٹرویو یا بیان نہیں مل سکا جس میں سعودی خواتین کے ڈریس کوڈ کے بارے کوئی بات کی گئی ہو۔
Polygraph.info حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ ہے جسے وائس آف امریکہ (VOA) نے تیار کیا ہے۔
اس کے مطابق اگرچہ سعودی عرب میں خواتین کے لباس کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے، لیکن ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شریعت کے مطابق لباس پہنیں۔
شہزادہ سلمان نے 19 مارچ 2018 کو سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ واضح طور پر کیا کہ شریعت میں یہ قوانین بہت واضح اور طےشدہ ہیں کہ عورتیں مردوں کی طرح مہذب اور شریفانہ لباس پہنیں۔ تاہم، اس میں خاص طور پر سیاہ عبایا یا سر کو ڈھانپنے کے لیے کالے رنگ کے سکارف کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ مکمل طور پر خواتین پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کس قسم کا مہذب اور احترام والا لباس پہننے کا انتخاب کرتی ہیں۔
خواتین پر فیصلہ چھوڑنے کی بات کرتے ہوئے، پرنس سلمان لباس کی قسم کی بجائے رنگ کے انتخاب کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو ان کے بقول شرعی قانون کے ذریعے مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
پلیٹ فارم ایکس نے گلوب آئی نیوز کی پوسٹ میں ایک کمیونٹی نوٹ بھی شامل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس پوسٹ میں اہم سیاق و سباق موجود نہیں۔
سعودی عرب کے نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے کمیشن نے جو مذہبی پولیس کے طور پر بھی کام کرتا ہے، 1980 اور 2010 کے عشرے کے اوائل میں خواتین کے ڈریس کوڈ اور صنفی علیحدگی کے سخت ضابطے نافذ کیے تھے۔
اگرچہ سعودی عرب میں مذہبی پولیس اب بھی موجود ہے، لیکن سعودی شاہ سلمان نے 2015 میں خواتین کے لیے لازمی طور پر برقع پہننے کی پابندی ختم کر دی تھی۔ اور 2019 میں انہوں نے خواتین کو گاڑی چلانے، رنگدار لباس پہننے اور ملبوسات کے مختلف انداز اور ڈیزائن کے انتخاب کی اجازت دے دی۔
SEE ALSO: سعودی عرب میں عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئیاس کے باوجود، سعودی عرب میں خواتین کے لیے اپنے لباس کا انتخاب اب بھی محدود ہے اور بہت سے ڈیزائن ان کے لیے ممنوعہ ہیں، جن میں ایسے ملبوسات شامل ہیں جن سے جسم کا زیادہ تر حصہ ظاہر ہوتا ہو، وہ لباس جو گھٹنے یا کہنی کو نہ ڈھانپتے ہوں، یا پیراکی کا لباس یا بہت تنگ اور ایسے باریک ملبوسات جن سے جسم نظر آئے۔
سعودی عرب میں آنے والی غیر ملکی خواتین کے لیے بھی ڈریس کوڈ مقرر ہے، اور انہیں ایسا لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے جن پر انسانی تصویریں، انسانی خاکے، یا ایسی عبارتیں اور نشانات ہوں جن سے عمومی شائستگی کی نفی ہوتی ہو۔
سوشل میڈیا کی حالیہ پوسٹوں اور یوٹیوب پر شائع ہونے والی ویڈیوز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ زیادہ تر سعودی خواتیں شرعی لباس کی پابندی کرتی ہیں، جب کہ کچھ نے سر اور چہروں کو ڈھانپنا ترک کر دیا ہے اور وہ جدید لباس بھی زیب تن کر رہی ہیں۔ لیکن زیادہ تر خواتین اب بھی اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک ایسے وقت میں جب کہ سعودی عرب میں خواتین کے ڈریس کوڈ میں کچھ إصلاحات ہو رہی ہیں، کئی دوسرے اسلامی ممالک مخالف سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جن کی ایک بڑی مثال ایران اور افغانستان ہیں۔
افغانستان میں 1970 تک، جب وہاں بادشاہت قائم تھی، خواتین لباس کے معاملے میں آزاد خیال تھیں۔ لیکن طالبان کے آنے کے بعد ان پر پابندیاں لگنی شروع ہو گئیں۔ اب وہاں آنکھوں کے سوا سیاہ عبائے یا چادر سے جسم کو ڈھانپنے کی پابندی ہے۔ لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے اور محرم کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایران میں بھی کٹڑ مذہبی گروپ کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے وہاں خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ نافذ ہے جس میں سر کو ڈھانپنا لازمی ہے۔
SEE ALSO: خواتین حجاب کے بغیر میڈیا پر نہ آئیں: افغان طالبانایران میں بھی کٹڑ مذہبی گروپ کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے وہاں خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ نافذ ہے جس میں سر کو ڈھانپنا لازمی ہے۔
2022 میں ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو پولیس نے درست طور پر سر نہ ڈھانپنے کے الزام میں گرفتار کیا جو بعد ازاں پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی۔ اس واقعہ کے خلاف ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جن میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک اور 22 ہزار کے لگ بھگ گرفتار ہوئے۔ ان میں سے کئی ایک کو پھانسیاں ہوئی اور ہزاروں کو مختلف معیاد کی جیل کی سزائیں دی گئیں۔
ایران کی سخت گیر اسلامی حکومت نے لوگوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے حالیہ عرصے میں خواتین کے ڈریس کو ڈ کی خلاف ورزی پر قانون سازی کرتے ہوئے مزید سخت سزائیں متعارف کرائی ہیں جن میں قید کو 10 سال تک بڑھا دیا گیا ہے اور جرمانے کی حد ساڑھے 8 ہزار ڈالر مقرر کر دی گئی ہے۔
(وی او اے نیوز)