تائیوان کی وزارت خارجہ نے اپنی وزیر محنت کے ان ریمارکس کے بعد معذرت کر لی ہے جن کے سبب تائیوان اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوتے تعلقات میں رخنہ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے یاہو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں تائیوان کی وزیر محنت شو منگ چن نے کہا تھا کہ تائیوان بھارت کے شمال مشرقی علاقے سے تارکین وطن کارکنوں کی بھرتی شروع کر سکتا ہے کیونکہ ان کی جلد کا رنگ اور کھانے کی عادات ہماری طرح ہیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر مسیحی ہیں اور مینو فیکچرنگ، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ناقدین نے ان ریمارکس کو نسل پرستانہ قرار دیا۔
اس کے بعدتائیوان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ شو کا تبصرہ پوری طرح مناسب نہ تھا۔ اور مخلصانہ معذرت طلب کی گئی۔
ایک بیان میں وزارت نے کہا کہ تائیوان کسی بھی ایسےبھارتی کارکن کا خیرمقدم کرے گا جو بھرتی کی شرائط کو پورا کرتا ہو، اور صنعت کی ضرورت کے مطابق ہو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی نسلی پس منظر سے ہو۔
ایسے میں جب کہ تائیوان کی آبادی کا بڑا حصہ تیزی سے بڑھاپے کی جانب بڑھ رہا ہے، وہ اپنے غیر ملکی کارکنوں کا دائرہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں سے آگے تک وسعت دینے کے لیے کوشاں ہے۔ سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مطابق اس وقت وہاں زیادہ تر غیر ملکی کارکن انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام سے آتے ہیں۔
تائیوان نے 16 فروری کو بھارت کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور بھارت سے کارکنوں کی بھرتی کا ایک فریم ورکتشکیل دیا گیا تھا، جہاں بے روزگاری بلند سطح پر ہے اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت گزشتہ برس آبادی کے لحاظ سے چین سے آگے نکل چکا ہے اور ایک اعشاریہ چار ارب آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن گیا ہے۔
مفاہمت کی یادداشت پر عمل درآمد کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں لیکن نومبر میں بلوم برگ نے اطلاع دی تھی کہ ایک لاکھ بھارتی ورکرز بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔
چین اس معاہدے پر برسر عام تو خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، لیکن کسی بھی دو طرفہ معاہدے پر جس میں تائیوان شامل ہو ، وہ برہم ہو سکتا ہے۔ جسے وہ اپنا الگ ہو جانے والا صوبہ قرار دیتا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے فوری طور پر نہ تو تائیوانی وزیر محنت کے بیان پر کوئی ردعمل دیا نہ ہی وزارت خارجہ کی معافی پر کوئی تبصرہ کیا۔ لیکن اندرون ملک بھارت کے کاروباری سیکٹر کی جانب سے کچھ رد عمل آیا ہے۔
دہلی کی ایک کاروباری شخصیت نفیس کیو جیلانی جو تائیوان کے ساتھ کاروبار بھی کرنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ تائیوانی وزیر کا بیان اپنی نوعیت کے اعتبار سے نسل پرستانہ ہے اور یہ ہمارے ملک کی اخلاقیات کی توہین ہے۔
دہلی میں قائم سینٹر فار چائنا انالسز کی ریسرچ فیلو نمراتا حسیجا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس قسم کے بیانات دو حکومتوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
بھارت اور تائیوان کے درمیان اس وقت آٹھ ارب ڈالر سالانہ کی معمولی سی تجارت ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت اور چین کے درمیان تجارت کا حجم 136 ارب ڈالر ہے۔ تائیوان میں کم از کم پانچ ہزار بھارتی شہری رہتے ہیں۔
بھارت کے کوئی تین ہزار طلباء، تائیوان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
(وی او اے نیوز کے لیےسنجے جھا کی رپورٹ)
فورم