سزائوں کی غیر متناسب پالیسی امریکی معیشت کے لیے نقصاندہ

اصلاحی مرکز میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک قیدی، عائشہ

صدر اوباما نے کہا ہے کہ ملک کے 22 لاکھ قیدیوں میں سے تقریباً 60 فی صد ایسے ہیں جو دماغی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، جب کہ 70 فی صد وہ ہیں جنھیں نشے کی عادت چھڑانے کے علاج کی ضرورت ہے

صدر براک اوباما نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ امریکہ میں قیدیوں پر سالانہ 80 ارب ڈالر کے اخراجات ''برداشت سے باہر'' معاملہ ہے، جب کہ غیر پُرتشدد جرائم میں ملوث لمبی مدت کی قید کاٹنے والے ایسے مجرم ہیں جنھیں دماغی صحت کے مسائل ہیں یا وہ نشے کے عادی ہیں۔

اُنھوں نے یہ بات اپنے ہفتہ وار ریڈیوخطاب میں کہی ہے۔

صدر نے کہا کہ ملک کے 22 لاکھ قیدیوں میں سے تقریباً 60 فی صد ایسے ہیں جو دماغی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، جب کہ 70 فی صد وہ ہیں جنھیں منشیات کی عادت چھڑانے کے علاج کی ضرورت ہے۔

یہ جرم اور سزا میں اصلاحات کے مطالبے کی مہم کا مہینہ ہے۔ مطالبے پر زور دیتے ہوئے، اوباما نے نئی پالیسیوں کا مطالبہ کیا جن کا مقصد 600000 سے زائد قیدیوں کو ہر سال رہا کرنے کا اہتمام کیا جائے، ''تاکہ وہ اپنے خاندان اور برادریوں کے لیے کارآمد بن سکیں''۔

اُنھوں نے کہا کہ آنے والے دِنوں کے دوران وائٹ ہائوس کاروباری اداروں پر زور دے گا کہ اُن قیدیوں کو نوکریاں دی جائیں جو قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اور کوشش یہ ہوگی کہ تفصیلی پالیسی سامنے لائی جائے جس کی مدد سے سزائیں پوری کرنے والوں میں اہل افراد وفاقی ملازمت کے حصول کی مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔

'نیویارک ٹائمز' میں جمعے کے روز ایک تحریر میں، چیرمین، وائٹ ہائس کونسل آف اکانومک ایڈوائزرس، جیسن فرمن نے جیل میں بند افراد کے اعداد کو ''پریشان کُن'' قرار دیا، جو باقی دنیا کی عام شرح کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔