پاکستان کے تقریباً چوبیس سو شہری سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں مختلف جرائم کی پاداش میں قید ہیں۔
پارلیمان کے ایران زیریں "قومی اسمبلی" میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بتایا کہ سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد 2393 ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ لوگ کب سے وہاں قید کاٹ رہے ہیں اور نہ ہی اس کی تفصیل مشیر خارجہ نے فراہم کی۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ 868 پاکستانی شہری منشیات سے متعلق جرائم میں قید کاٹ رہے ہیں جب کہ دیگر افراد قتل، چوری، دھوکہ دہی، لڑائی جھگڑے اور ایسے ہی دیگر غیر قانونی واقعات میں ملوث ہونے پر قید ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان قیدیوں کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے مختلف اقدام کر رکھے ہیں اور پاکستان کا سفارتی عملہ اس سلسلے میں قیدیوں سے ملاقات بھی کرتا رہتا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ بیرونی ممالک خاص طور پر خلیجی ملکوں کی جیلوں میں قید پاکستانی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ انھیں اپنے ملک کی حکومت کی طرف سے مناسب قانونی معاونت فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ان کا مقدمہ کمزور رہتا ہے اور انھیں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی حکومت کے ان دعوؤں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے لیے مبینہ طور پر سنجیدہ اقدام دیکھنے میں نہیں آتے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور معروف وکیل ضیاء اعوان کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس ضمن میں خاص طور پر خلیجی ممالک سے کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن مشیر خارجہ نے ایوان کو بتایا کہ قانونی مشاورت فراہم کرنے کے علاوہ جیل سے رہا ہونے والوں کو ہنگامی طور پر سفری دستاویزات بھی مہیا کرتی ہے جب کہ رمضان، عیدین اور دیگر تہواروں کے موقع پر ان قیدیوں کی سزاؤں میں معافی کے لیے بھی متعلقہ ملک کی حکومت سے درخواست کرتی رہتی ہے۔