امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہفتے کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں مظاہرین نے اسرائیل کے لیے امریکی امداد ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
لنکن میموریل کے احاطے میں لگ بھگ ایک ہزار سے زائد مظاہرین جمع ہوئے جنہوں نے فلسطین کے پرچم اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے۔
ریلی کا اہتمام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حال ہی میں اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان غزہ میں 11 روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد سیز فائر ہوا تھا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ریلی میں شریک ایک وکیل شریف سلمی نے کہا کہ "ہم آج امریکی حکومت کو یہ واضح پیغام دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو کسی نتائج کا سامنا کیے بغیر امداد دینے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔"
مظاہرین کا کہنا تھا کہ "ہم ہر اس سیاست دان کی مخالفت کریں گے جو اسرائیل کو ہتھیار دینے کی حمایت کرے گا۔ ہم اس کے خلاف ووٹ دیں گے، ہم ایسے سیاست دان کے مخالف کو فنڈز دیں گے یہاں تک کہ ہم اُنہیں عہدے سے ہٹا نہیں دیتے۔"
ورجینیا سے آئی ایک فلسطینی نژاد امریکی خاتون لاما الحمد کا کہنا تھا کہ امریکہ میں رائے عامہ اب فلسطین کاز کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کا کہنا تھا کہ "امریکہ میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ لوگ فلسطینیوں کے لیے آزاد اور خود مختار ملک کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں۔"
الحمد کا مزید کہنا تھا کہ "ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم انسان ہیں، ہمیں دہشت گرد نہ سمجھا جائے۔"
شریف سلمی کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اب اسرائیل کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے کیوں کہ امریکی اب سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو ایک وقت میں جنوبی افریقہ میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہوتا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "لوگ اب جاگ چکے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں، چاہے وہ نوجوان یہودی ہوں یا مسلمان، یا وہ نوجوان گورے یا سیاہ فام ہوں یہ ایک نئی نسل ہے جو نسلی امتیاز، رنگ اور نسل سے ہٹ کر فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق کی حمایت کر رہی ہے۔''
خیال رہے کہ گیارہ روز تک جاری رہنے والی اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں غزہ میں اسرائیل نے بمباری کی تھی جب کہ حماس اور دیگر مسلح گروہوں نے اسرائیل کی طرف چار ہزار سے زائد راکٹ برسائے تھے۔
اس لڑائی میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت فلسطینیوں کی تھی۔
لڑائی کو روکنے کے لیے امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے جن میں اس تنازع کے حل کے مطالبات کیے گئے تھے۔
اسرائیل کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک کی طرف سے حالیہ دنوں میں غزہ میں بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت شہریوں کی جانوں کے زیاں پر کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں امن پسند کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے کئی مظاہروں میں غزہ میں اسرائیلی حملوں میں جان و مال کے نقصان کے خلاف آواز بلند کی۔
دوسری طرف اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو طاقت کے بے جا استعمال کے الزامات کو رد کرتے رہے ہیں۔ اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ انہیں حماس کے راکٹ داغنے کے جواب میں اپنے ملک اور لوگوں کے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔
اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے نے گزشتہ ہفتے جب کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل حالیہ لڑائی میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہو، تو اسرائیلی سفیر میرو ایلن شاہر نے اس پر اعتراض کیا۔
اسرائیلی سفیر کا کہنا تھا کہ حماس نے، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے، فلسطینی گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں سے اسرائیلی شہریوں پر چار ہزار چار سو راکٹ حملے کیے۔ ان کے بقول ہر راکٹ حملہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔