امریکہ میں قائم مسلمانوں کی ایک تنظیم 'اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ' کی سابق صدر اور مسلمان دانشور اِنگرِڈ میٹسن نے رواں ہفتے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ماہِ رمضان میں یروشلم میں مسجدِ الاقصیٰ اور فلسطینیوں پر حملوں پر چند حلقوں کی خاموشی سے انہیں ڈر ہے کہ امریکہ میں آباد مسیحیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک پوری نسل کا بحران ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق سوشل میڈیا پیغام میں میٹسن کا کہنا تھا کہ مقدس مقام پر حملہ تمام مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ اس پر بعض مذہبی گروہوں کی خاموشی سے انہیں دکھ ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس سے ایک انسان کے دل میں بین المذاہب تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ربائیز فار ہیومن رائٹس‘ اور ’جیوئش وائس فار پیس‘ جیسے چند گروہوں کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔ ان گروہوں نے اس مسئلے پر انسانی حقوق کے مغربی علم برداروں کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
کیلی فورنیا میں قائم ایک گروپ ’جیوئش وائس آف پیس‘ نے بین المذاہب رابطوں کو اپنا مرکزی مشن قرار دیا ہے۔
اس تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیفنی فاکس کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے مسلمان امریکی گروہوں کے ساتھ گہری شراکت داریاں قائم کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اِن مقدس دنوں میں جو ہوا، وہ دہشت ناک ہے۔ انہوں نے تنازعے کے ایک اہم فریق کو جواب دہ ٹھیرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
امریکہ میں بین المذاہب مکالمے پر کام کرنے والے مسلمان اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری پر تشدد تنازعے کی وجہ سے دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے امریکی گروہوں میں ایک دوسرے سے روابط بڑھانے اور سمجھنے کی خواہش کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ اپنے اپنے حلقوں میں کوشش کر رہے ہیں کہ خوف اور اشتعال پر مبنی جذبات کو پھیلنے سے روکا جائے۔
رواں ہفتے امریکہ کی ریاست مشی گن میں بین المذاہب مکالمے کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’انٹر فیتھ ایسوسی ایشن آف گرینڈ ریپِڈز‘ نے زیرِ تربیت ڈاکٹروں کو مختلف معاشروں اور مذاہب کے افراد سے رابطے کے لیے آن لائن کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس کے دوران اسرائیل فلسطین تنازعے پر بات چیت شروع ہو گئی۔
اس تنظیم کی صدر فریڈ سٹیلا کا کہنا ہے کہ ہم نے سوچا تھا کہ ہم جس موضوع پر بات کر رہے ہیں وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے معاملے سے بالکل الگ ہے لیکن نہیں، یہ معاملہ زیرِ بحث آیا۔
سٹیلا کہتی ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس بات کو تسلیم کیے بغیر ہم بین المذاہب مکالمہ آگے نہیں بڑھا سکتے کہ اس جنگ میں کوئی بھی 100 فی صد درست نہیں ہے۔
یروشلم میں قائم ایک تنظیم 'کِڈز فار پیس' اسرائیلی اور فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تشدد میں کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہے لیکن یہ مکمل طور پر کبھی رکا نہیں ہے۔
'کڈز فار پیس' پروگرام کے ڈائریکٹر اتے فلیچر کہتے ہیں کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان کئی شہروں میں دونوں مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لڑائی میں تازہ ترین شدت اور رات کے وقت عربوں اور یہودیوں کو ہلاک کرنے کی کوششوں سے، ہمارے ارد گرد کی سڑکوں پر نفرت اور تشدد کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
فلیچر کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم کے چند ارکان گروپ کی تقریبات میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نکلنے پر ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے لیکن رمضان کے دوران افطاریوں پر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی حاضری بھی مناسب تھی۔
فلیچر کہتے ہیں کہ اگر یروشلم ایک ایسا شہر نہ بنا، جو ہم سب کے لیے واقعی ایک گھر کی طرح ہو، تو پھر انجام کار یہ کسی کے لیے بھی محفوظ شہر نہیں رہے گا۔