واشنگٹن ڈی سی میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کا احتجاج

ہفتے کو صدر کی حامی لگ بھگ ایک درجن تنظیموں اور گروپس نے دارالحکومت میں احتجاج کی کال دی تھی جس میں شرکت کے لیے صدر کے حامی ملک کے مختلف علاقوں سے دارالحکومت پہنچے۔

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے صدارتی انتخابات میں صدر کی جانب سے عائد کیے گئے دھاندلی کے الزامات کے حق میں احتجاج کیا ہے۔

ہفتے کو صدر کی حامی لگ بھگ ایک درجن تنظیموں اور گروپس نے دارالحکومت میں احتجاج کی کال دی تھی جس میں شرکت کے لیے صدر کے حامی ملک کے مختلف علاقوں سے دارالحکومت پہنچے۔

یہ واضح نہیں کہ احتجاج میں کتنے افراد نے شرکت کی۔ واشنگٹن ڈی سی کی پولیس اور انتظامیہ نے بھی مظاہرین کی تعداد سے متعلق کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔

ہفتے کو واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج سے لگ بھگ دو گھنٹے قبل صدر ٹرمپ اپنے قافلے کے ہمراہ دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ پینسلوینیا ایونیو سے گزرے اور وہاں موجود مظاہرین کو دیکھ کر مسکرائے اور انہیں ہاتھ ہلایا۔

بعد ازاں صدر کا قافلہ واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں موجود ان کے ذاتی گالف کلب روانہ ہو گیا جہاں انہوں نے اطلاعات کے مطابق گالف کھیلی۔

امریکی نشریاتی ادارے 'فوکس نیوز' کے مطابق گالف کلب سے وائٹ ہاؤس واپسی پر صدر ٹرمپ ایک بار پھر اپنے حامیوں کے درمیان سے گزرے جنہوں نے صدر کو دیکھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔

Your browser doesn’t support HTML5

صدارتی انتخابات کے نتائج پر امریکیوں کی رائے

اس سے قبل اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر نے کہا تھا کہ جس طرح ملک بھر میں لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں اور اپنے طور پر جلوس نکال رہے ہیں اس سے ان کا دل خوشی سے بھر گیا ہے۔

صدر نے کہا تھا کہ وہ ہفتے کو واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے احتجاج کے مقام کا دورہ کرنے اور اپنے حامیوں کو 'ہیلو' کہنے کی کوشش کریں گے۔

صدر کے حق میں ہونے والے اس احتجاج کی میڈیا سے وابستہ کئی قدامت پسند شخصیات اور سفید فام قوم پرستوں نے بھی حمایت کی تھی۔

صدر کے حامیوں کے احتجاج کے مقابلے میں ان کے مخالفین نے بھی جوابی مظاہروں کا اعلان کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران بعض مقامات پر فریقین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

واشنگٹن ڈی سی پولیس کے مطابق ہاتھا پائی اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں کم از کم 10 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

امریکہ کے دارالحکومت میں یہ احتجاج ایسے وقت ہوا ہے جب ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق صدر منتخب ہونے کے لیے درکار الیکٹورل کالج کے 270 ووٹوں کا ہدف عبور کر چکے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

ری پبلکن پارٹی صدر ٹرمپ کے ساتھ کیوں کھڑی ہے؟

اب تک امریکہ کی 50 میں سے 49 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہو چکا ہے جن کے مطابق جو بائیڈن 290 ووٹوں کے ساتھ برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔

اب تک متب کیے گئے غیر سرکاری نتائج کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 232 ووٹ ہیں۔ اب صرف ایک ریاست جارجیا کے نتائج آنا باقی ہیں۔

امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کے ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ عوام الیکٹورل کالج کے 538 ارکان کا انتخاب کرتے ہیں جو بعد ازاں صدر منتخب کرتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے تین نومبر کو کونے والے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔

صدر اور ان کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ کئی ایسی ریاستوں میں انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی جہاں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔

صدر کی انتخابی مہم نے ایسی کئی ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی ہیں جب کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے بعض ووٹ منسوخ کرانے کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کیا ہے۔