چین اور پاکستان نے کہا ہے کہ بلوچستان سے اغوا کیے گئے دو چینی شہریوں کے قتل سے متعلق شدت پسند تنظیم داعش کے دعوے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 24 مئی کو ایک چینی جوڑے کو اغوا کیا گیا تھا، اس دوران گاڑی میں موجود تیسری چینی خاتون ایک راہ گیر کی مداخلت پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
داعش نے جمعرات کو اپنی ویب سائٹ 'اعماق' پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ کوئٹہ سے اغوا کیے گئے چینی باشندوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔
اغوا کیے گئے چینی شہری بلوچستان میں چینی زبان سکھانے کے ایک ادارے سے وابستہ تھے۔
پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ’داعش‘ کے دعوے کی تصدیق کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیو چیننگ نے جمعے کو چینی خبر رساں ادارے ’ژنہوا‘ کو بتایا کہ بیجنگ حکومت اس بارے میں پاکستان سے معلومات حاصل کر رہی ہے۔
ترجمان نے چینی شہریوں کے قتل کے دعوے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم مغوی شہریوں کی بازیابی کے لیے گزشتہ دنوں میں کوششیں کرتے آئے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے پاکستانی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ اس بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں لیکن تاحال کوئی لاش نہیں ملی ہے۔
پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چینی شہری مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اور ماضی میں بھی اُن پر شدت پسندوں کی طرف سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
50ارب ڈالر سے زائد مالیت کے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے، توانائی کے منصوبوں اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔
اس منصوبے پر کام جاری ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں پاکستان میں کام کے لیے آنے والے چینی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں موجود چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی فورس بھی تشکیل دی گئی ہے۔