وزیرِ اعظم عمران خان نے کسانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کی کاشت کردہ زرعی اجناس کی مناسب قیمت پر خریداری اور چھوٹے کاشت کاروں کے لیے منڈیوں تک رسائی آسان بنائیں گے۔
کسانوں کے قومی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ کاشت کاروں کے لیے صحت کارڈ کی سہولت اور تعلیمی میدان میں اسکالر شپ کو احساس پروگرام کے تحت یقینی بنایا جائے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک سمیت پاکستان میں بھی کسانوں کی اہمیت اور ان کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کاشت کاروں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں 18 دسمبر کو کسانوں کے قومی دن سے منسوب کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے یومِ کسان پر یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک بھر کے کسان پیداوار میں کمی، مہنگی کھاد و ادویات اور اجناس کی کم قیمتوں میں خریداری پر مشکلات کا شکار ہیں اور احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت اور اس سے چلنے والی صنعتوں پر منحصر ہے۔ ملکی برآمدات کا نصف سے زائد انحصار ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہے۔
وفاقی وزیر برائے فوڈ اینڈ سیکیورٹی فخر امام کے مطابق زراعت کا جی ڈی پی میں 19.3 فی صد حصہ ہے۔ اس میں 60 فی صد حصہ لائیو اسٹاک کا ہے اور 40 فی صد فصلوں کی مد میں آتا ہے۔ فصلوں میں 80 فی صد حصہ پانچ بڑی فصلوں کا ہے، جس میں گندم، چاول، کپاس، مکئی اور گنا شامل ہیں۔ باقی 20 فی صد میں چارہ، دالیں، پھل اور سبزیاں ہیں۔
زراعت کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی افرادی قوت کی اکثریت زراعت سے منسلک ہے اور پاکستان کی پہچان بھی زرعی ملک کے طور پر ہی ہوتی ہے۔ لیکن ملک میں کسان ماحولیاتی تبدیلیوں، "ناقص" حکومتی پالیسیوں اور مہنگائی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔
شوکت علی چدڑ 'پاکستان کسان بورڈ' کے صدر ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کی ناقص زرعی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کا استحصال ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت میں رسک بہت زیادہ ہے اور منافع سارا 'مڈل مین' کو ملتا ہے۔ کسانوں کو اچھی کوالٹی کا بیج میسر نہیں ہے۔
ان کے بقول کھاد، کیڑے مار اسپرے اور دواؤں کی قیمتیں بہت مہنگی ہیں اور ان کے معیار کے تعین کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔
"کھاد پر کھاد مافیا کا کنٹرول ہے، بیج پر بیج مافیا قابض ہے، کیڑے مار دواؤں پر متعلقہ انڈسٹری کا کنٹرول ہے۔ وہ جب چاہیں، جتنا مرضی چاہیں، قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔"
شوکت علی کے بقول کوئی ایسا محکمہ نہیں ہے جو کسان کی فصلوں کی قیمت کا تعین کرے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فصل پر لگائی گئی رقم تک وصول نہیں ہوتی۔
کاشت کار شوکت علی نے ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل کسانوں نے اپنی تیار فصل زمینوں کے اندر ہی جلا دی کیوں کہ انہیں جائز قیمت نہیں مل رہی تھی۔
گندم، کپاس، چاول اور گنا پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں شامل ہیں جنہیں 'کیش کراپ' بھی کہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں گندم کی سرکاری 'سپورٹ پرائس' کے تعین میں کسانوں کے مطالبات پورے نہ کرنے پر کاشت کاروں نے ہڑتال بھی کی۔۔۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح پاکستان میں کپاس کی پیدوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور رواں سال، دہائی کا مشکل ترین سال ثابت ہو رہا ہے۔ زمین داروں کے مطابق بوائی کے فوری بعد پہلے ٹڈی دل اور بعد میں مسلسل بارشوں کی وجہ سے فصل بُری طرح متاثر ہوئی۔
ماہرین کے مطابق رواں سال کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ پیداوار 2014 میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں تھیں جو کہ اب بہت گھٹ گئی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں، سُنڈیوں کے حملوں اور اب کرونا وبا کے باعث پاکستان پیدواری ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے سابق عہدیدار سہیل محمود ہرل کے مطابق یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان پچھلے پچاس ساٹھ سال سے ٹیکسٹائل یا کاٹن بیس ملک ہے اور ہمارے لوگوں نے اپنی مہارت اسی میں حاصل کی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ بدقسمی سے کپاس کی فصل بتدریج گرتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر کاٹن کی پروڈکشن اسی طرح گرتی رہی تو ملکی معیشت بہت زیادہ گر جائے گی۔ جس کے اثرات وقت کے ساتھ دکھائی دیں گے۔
سہیل محمودنے واضح کیا کہ معیشت سمجھنے کے لیے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا پیمانہ جانچنا بہت آسان ہے اور کپاس کو صرف ایک فصل کے طور پر نہیں۔ بلکہ ترقی، روزگار، زرمبادلہ کے ایک مکمل چین کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شوکت علی چدڑ کے مطابق پاکستان کا زرعی رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے جو کہ غیر قانونی رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق اس کے دو نقصانات ہیں۔ ایک تو شہر کے ساتھ ملحقہ زرعی زمین جب رہائشی کالونی میں تبدیل ہوتی ہے تو اس سے شہر کے باسیوں کے لیے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا ان کے بقول سیورج کا نظام بہت گندہ ہو جاتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے وہ زمین اب بھی زرعی زمین کے کھاتے میں حساب ہوتی ہے۔ جب کہ دراصل وہ رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو چکی ہوئی ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے زراعت پر اثرات
ماہر ماحولیات سائرہ خالد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسانوں کا انحصار کبھی چار موسموں پر ہوتا تھا کیونکہ سال میں مستقل چار موسم ہوتے تھے۔ لیکن حالیہ کچھ سالوں میں یا تو موسم شدید سرد یا پھر شدید گرم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے بقول کسان نہ تو صحیح وقت پر فصل بو سکتا ہے اور نہ ہی کاٹ سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کسان ابھی بھی روائتی ربیع اور خریف کے طور طریقوں پر چل رہے ہیں اور انھوں نے اپنے پرانے پیٹرن موسم کے لحاظ سے بالکل بھی تبدیل نہیں کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے سبزیوں، پھلوں اور فصلوں پر زیادہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کھڑی فصلیں بارشوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر سائرہ خالد کے مطابق اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مکھیاٰں، جو کہ پولینیشن میں اہم کردار ادا کرتی تھیں، وہ بھی درجہ حرارت میں کمی یا زیادتی کے باعث دوسری جگہوں پر منتقل ہو گئیں ہیں۔ جس کا اثر براہ راست پیداوار میں کمی کی صورت میں واقع ہوتا ہے۔
حالیہ سردی کی شدت کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ اس موسم کی فصلیں جس میں گندم نمایاں ہے۔ وہ اتنی زیادہ سردی برداشت نہیں کر سکتیں جو کہ مجموعی پیداور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کو اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھانا ہو گا۔ کسان کو اچھی کوالٹی کے ایسے بیج فراہم کرنے ہوں گے جو کہ موسمیاتی دباؤ کو برداشت کر سکنے کے قابل ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا حکومت کسان کو کم از کم دو سال کا موسمی چارٹ فراہم کرے جس کے مطابق وہ اپنی پالسی بنائیں اور اپنی فصلیں کاشت کریں۔
حکومت کا کہنا ہے انھیں کسانوں کے مسائل کا اندازہ ہے اور اس سلسلے میں وہ تمام وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے اور ایسے بیج کسانوں کو مہیا کر رہی ہے جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر سکے بلکہ پیداوار بھی بڑھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ‘نیشنل فوڈ اور سیکیورٹی ریسرچ’ کے ترجمان جاوید ہمایوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کسان سرٹیفیائڈ بیج استعمال کرے۔ اس کے لیے ٹوٹل 1.1 ملین ٹن کی طلب ہے۔
ان کے بقول 50-60 فیصد پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہوتا ہے۔ باقی ماندہ کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سرٹیفائیڈ بیج دیا جائے تاکہ جو ڈیمانڈ اور سپلائی کا گیپ ہے اس کو اس طرح کور کیا جائے۔"
پاکستان کسان بورڈ کے صدر شوکت علی چدڑ کا مزید کہنا تھا کہ زراعت کی گرتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر نوجوان نسل اس میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے اور وہ زیادہ تر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت نے اپنی زرعی پالیسی کسان دوست نہ کیں تو پاکستان جلد ہی معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہو گا۔
ملک میں گندم اور چینی کے حالیہ بحران پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے شوکت علی چدڑ نے مزید بتایا کہ جو پیسہ حکومت ان اشیاء کی درآمد پر لگاتی ہے۔ اگر وہی پیسہ وہ کسان کو پیشگی بطور سبسڈی کے طور پر دے، جس سے وہ بہتر کھاد اور دوسری ضروری اشیاء خرید سکے، تو ملک میں تمام فصلیں ریکارڈ توڑ پیداوار کر سکیں گی۔