وفاقی حکومت نے شمالی وزیرستان میں امن و امان کی ابتر صورتِ حال بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنا دینے والے قبائل کے ساتھ مذاکرات کے لیے سابق وزیرِ اعلیٰ اور جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی سربراہی میں 26 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے البتہ اس کمیٹی میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کے اعلامیے کے مطابق کمیٹی میں وفاقی حکومت میں شامل یا اس کی حمایت کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں تاہم 26 رکنی کمیٹی یا جرگہ میں خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کا نمائندہ شامل نہیں ہے ۔
وفاقی حکومت نے یہ کمیٹی ایک ایسے وقت میں تشکیل دی ہے جب احتجاجی دھرنا دینے والے قبائلیوں نے یومِ آزادی کی سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور جمعرات سے اتوار 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے ۔
اس 26 رکنی کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جرگے میں شامل تمام اراکین اور نمائندے جمعے کی صبح بنوں میں ان کی رہائش گاہ پر جمع ہوں گے جہاں سے وہ اتمان زئی قبائل کے سرکردہ رہنماؤں اور ملک رب نواز کی سربراہی میں پچاس رکنی جرگے سے بات چیت کے لیے شمالی وزیرِ ستان روانہ ہوں گے ۔
انہوں نے حالیہ کوشش کی کامیابی کی توقع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بدھ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیرِ داخلہ خواجہ آصف سے ملاقات کرکے انہیں ان کوششوں کے بار ےمیں اعتماد میں لیا تھا۔
SEE ALSO: وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف دھرنا جاری، بعض شاہراہیں چند گھنٹوں کے لیے بحالخیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے کی اس کمیٹی میں عدم موجودگی کے بارے میں اکرم خان درانی نے کہا کہ گزشتہ 26 دن سے شمالی وزیرستان میں احتجاجی دھرنے ہو رہے ہیں اور تمام سڑکیں آمد و رفت کے لیے بند ہیں جب کہ تجارتی مراکز میں بھی سرگرمیاں معطل ہیں۔ تو کیا وزیرِ اعلیٰ اور ان کی کابینہ میں شامل وزرا کو علم نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قبائل بھی صوبائی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے صوبائی حکومت کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ کمشنر بنوں، ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان اور دیگر انتظامی افسران کے ساتھ ان کے رابطے قائم ہیں اور وہ بھی اس مذاکراتی عمل میں شامل ہوں گے۔
جرگے میں شامل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما عبداللہ ننگیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیٹی اتمان زئی قبائل کے سرکردہ رہنماؤں کی تجویز پر قائم کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور نمائندے کمیٹی میں باہمی صلاح و مشورے سے شامل کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتمان زئی قبائل کے مطالبات اور مشکلات کا تعلق بھی وفاقی حکومت سے ہے۔ اسی وجہ سے یہ کمیٹی وفاقی حکومت کی وزارتِ دفاع نے تشکیل دی ہے۔
SEE ALSO: شمالی وزیرستان: فوجی قافلے پر خود کش حملے میں چار اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیقخیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے اس کمیٹی کے تشکیل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے وفاق کی صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ دو صوبائی وزرا سمیت مختلف سطح پر اتمان زئی قبائل کے سرکردہ افراد کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ وفاقی حکومت کا اس معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے اتمان زئی قبائل اور دیگر قبائلی اضلاع کے عوام کو درپیش مسائل کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت ضم شدہ اضلاع کو وفاقی محصولات میں طے شدہ رقم اور وسائل کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہے۔
بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق اس نام نہاد کمیٹی کی مداخلت کے بجائے وفاق کو ضم شدہ اضلاع کے 25 ارب روپے خیبر پختونخوا کو ادا کرنے چاہیے تھے۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ، وزیرستان میں قبائلیوں کا احتجاجانہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی خواہش ہے کہ شمالی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع میں امن و امان قائم ہو اور لوگوں کی جان و مال کی تحفظ حاصل ہو البتہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کمیٹی کے فیصلوں پر صوبائی حکومت کے لیے عمل درآمد کرنا لازم نہیں ہوگا۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک طرف تو وفاقی حکومت اس مسئلے میں فریق ہے اور دوسری طرف کمیٹی میں شامل افراد وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ کس طرح اس مسئلے کو حل کریں گے۔
انہوں نے کمیٹی میں خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے کی عدم موجودگی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی کس طرح مجوزہ فیصلوں پر عمل در آمد کو یقینی بنائے گی۔
شمالی وزیرستان میں بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف گزشتہ چار ہفتوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ اس دھرنے میں اتمان زئی، داوڑ اور وزیر قبائل شریک ہیں۔ ان قبائل نے بدھ کو بہت بڑا جرگہ عیدک کے مقام پر منعقد کیا جس میں عمائدین نے 14 اگست تک احتجاج جاری رکھنے او ر اس دوران اپنے گھروں اور گاڑیوں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا : پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟دوسری جانب خیبر پختونخوا کے شمالی ضلعے سوات میں طالبان عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ یہ رپورٹس ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے بدھ کو اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ سرحد پار افغانستان میں جاری مذاکرات کے مستقبل کا دار و مدار طالبان قیادت کے رویے پر منحصر ہے ۔ تاہم انہوں نے ان رویوں کی مزید تفصیلات نہیں بتائی۔