سری لنکا کے وزیرِ اعظم مہندا راجا پاکسے پر ملک میں بڑھتے معاشی بحران کے سبب مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے اتحادیوں نے بھی حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے۔
ملک کے وزیرِ اطلاعات نالاکا گوڈاہیوا نے بھی صدر گوتابیا راجا پاکسے کے دفتر کے باہر موجود ہزاروں مظاہرین کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جو کہ ان سے اور ان کے خاندان کے دیگر ارکان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سری لنکا کو 1948 میں آزادی کے بعد اس وقت سنگین ترین معاشی بحران کا سامنا ہے، جہاں کئی ماہ سے بجلی غائب ہے اور غذا، پیٹرول اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت ہے۔
بحران کے سبب ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ مظاہرین ایوانِ صدر کے باہر دو ہفتوں سےاحتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔
دباؤ کا سامنا کرنے والے صدر نے رواں ماہ اپنے دو بھائیوں اور بھتیجے کو کابینہ سے برطرف کر دیا تھا۔ البتہ مظاہرین کی طرف سے ان برطرفیوں کو دکھاوا قرار دیا جا رہا ہے۔
راجا پاکسے کے حامی گودھیوا کا کہنا ہے کہ صدر کو اپنے بڑے بھائی اور وزیراعظم مہندا راجا پاکسے کو برطرف کرنا چاہیے جو کہ سیاسی خاندان کے سربراہ ہیں۔
گودھیوا کا کہنا تھا کہ صدر کو تمام جماعتوں پر مبنی عبوری حکومت کو اقتدار سنبھالنے کی اجازت دینی چاہیے۔
حکومت کے خلاف مظاہروں کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے احتجاج میں شریک ایک شخص کی منگل کو ہونے والی موت کے بعد اپنی ساکھ کھو دی ہے۔
گودھیوا کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے تاہم صدر راجا پاکسے نے ان کی اس پیشکش کو رد کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں گودھیوا کا کہنا تھا کہ معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔
بحران کے حل کی تجویز دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم سمیت پوری کابینہ کو مستعفی ہونا چاہیے۔ ایک عبوری حکومت قائم ہو، جس پر سب کا اعتماد ہو۔
برسرِ اقتدار جماعت کے متعدد دیگر رہنماؤں نے، جن میں سابق وزیر اطلاعات اور کابینہ کے ترجمان دولاس الاہپروما بھی شامل ہیں، وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
الاہپروما کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ حقیقی اتفاق رائے سے ایک چھوٹی کابینہ کا تقرر کریں جو کہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کی نمائندگی کرے۔