پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت کے لیے جس کی مدت کا بھی ابھی تعین نہیں ہو سکا ہے، کہ آیا وہ سابقہ حکومت کی بقیہ مدت پوری کرے گی یا قبل از وقت انتخابات کا راستہ اختیار کرے گی، ماہرین کے بقول معیشت، سیاست اور کرپشن جیسے مسائل کے ساتھ ایک بہت بڑا چیلینج یہ بھی ہے کہ نئے وزیرِ اعظم ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور بھتیجی مریم نواز سمیت اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تعلقات میں توازن کس طرح برقرار رکھیں گے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ میاں نواز شریف اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کے لیے شہرت رکھتے ہیں اور تین بار انہیں اپنے اسی انداز فکر کے سبب اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
پروفیسر حسن عسکری جو سول ملٹری تعلقات کے ماہر اورتجزیہ کار ہیں کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ شہباز حکومت کے لیے یہ یقینًا ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ ان تعلقات میں توازن کس طرح قائم رکھتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں استحکام کے لیے سول ملٹری تعلقات کا اچھا ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ نواز شریف روایتی طور پر فوج مخالف رویے کے لیے شہرت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ خاصے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں فوج کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا نئے وزیر اعظم ان رجحانات کو تبدیل کروا سکیں گے یا انہیں فی الحال روک سکیں گے۔
خیال رہے کہ حکومت میں متعدد مختلف الخیال پارٹیاں شامل ہیں جو سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی خاطر اکھٹی ہوئی تھیں اور اب وہی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ ان سب کو ان کے مختلف خیالات اور نظریات کے ساتھ لے کر چلنا ایک بہت مشکل کام ہو گا۔
بعض مبصرین کا خیال ہےکہ حکومت پر دباؤ نظر آنا شروع ہوگیا ہے جس کی ایک مثال طارق فاطمی کا پورٹ فولیو کا تقرری کے چند گھنٹوں بعد ہی تبدیل کر دیا جانا ہے۔ ان کا تعلق نواز شریف کے سابقہ دور حکوت میں ’ ڈان لیکسس ‘ سے موسوم سکینڈل سے جوڑا جاتا ہے۔
تاہم پروفیسر حسن عسکری کا خیال اس سے مختلف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خارجہ امور چونکہ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں اور طارق فاطمی کے ساتھ ان کا چلنا مشکل ہوتا، اس لیے انہیں وہاں سے ہٹایا گیا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے کسی رکن کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے اور مبصرین کے کہنے کے مطابق اس کا سبب اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے اور یہی بات شاید پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلاف رائے کا سبب بھی بن رہی ہے، جس کا اصرار ہے کہ انہیں حکومت میں شامل کیا جائے۔
بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف اتنا تجربہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے اسٹیبلشمنٹ مخالف رویے کے باوجود فوج کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم رکھ سکیں۔
خالد رحمان، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف یہ شہرت رکھتے ہیں کہ وہ اسیٹبلشمنٹ یا دوسروں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، وہ بھی بقول ان کے اس وقت کچھ محتاط ہے۔ اس لیے ادھر سے بھی فوری طور پر کوئی مسئلہ پیدا ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔
ماہرین کے بقول زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اتنی بہت ساری پارٹیوں کا اتحاد خود اپنے اندر کتنی دیر تک ہم آہنگی برقرار رکھ سکے گا اور اختلافات کے جو آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں، وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور آئندہ کی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات کے خوف کے باوجود اپنا شیرازہ بکھرنے سے بچاسکے گا۔
خالد رحمان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اب تک جو کچھ ہوا ہے اس میں نواز شریف کی مرضی شامل رہی ہے۔ اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ فوری طور پر وزیر اعظم کے لیے فوج یا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے موقف کے درمیان توازن کا کوئی مسئلہ ہوگا۔ اصل مسئلہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف کے تقرر کے وقت درپیش ہوگا۔ اس وقت اگر نواز شریف نے اپنے مزاج اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق اپنی مرضی کرنی چاہی تو وزیر اعظم کے لیے بڑا مسئلہ بنے گا۔ اور اگر انہوں نے تاریخ سے یہ سبق لے لیا کہ سب سے زیادہ سینئر کو چیف آف آرمی اسٹاف بنادیا جائے تو مسئلہ نہیں بنے گا۔
طارق فاطمی سے امور خارجہ میں مشیر کی ذمہ داریاں واپس لینے اور پشتوں تحفظ موومنٹ کے کسی رکن کو فوری طور پر کابینہ میں شامل نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں مبصرین کی آراء مختلف ہیں۔ بعض سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کا کوئی ہوم ورک نہ تھا اور وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس لیے اپنے تاثر کو درست رکھنے کے لیے عجلت میں فیصلے کرتی ہے اور پھر انہیں تبدیل کرتی ہے۔
بعض سمجھتے ہیں کہ طارق فاطمی کو وزیر اعظم اس لیے خارجہ امور سے وابستہ کرنا چاہتے تھے تاکہ خارجہ امور پوری طرح سے صرف پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں نہ رہیں۔ لیکن پھر دباؤ اور ڈان لیکس سے ان کے مبینہ تعلق کے سبب انہیں ہٹانا پڑا۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان کو حکومت میں شامل نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض سمجھتے ہیں کہ ان ارکان کے پاکستان کے بارے میں موقف اور فوج کے تحفظات کے سبب انہیں الگ رکھا گیا کیونکہ شہباز شریف فوج کی مخالفت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
خیال رہے کہ اس پورے عرصے میں فوج کا موقف یہ رہا ہے کہ سیاست و حکومت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بالکل غیر جانبدار ہے اور آئین اور قانون کے تحت حکومت کے احکامات بجا لانے کے لیے تیار ہے۔
دفاعی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل غلام مصطفے کہتے ہیں کہ فوج کا بحیثیت ایک ادارے کے حکومت کی حمایت کرنا اور اس کا حکم بجا لانا اس کا فرض ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح سے افواج پاکستان پر زبانی حملے کیے گئے، جو باتیں کی گئیں، وہ کوئی بھلا دینے والی نہیں ہیں۔ اور وہ خود اس حکومت کے قانونی جواز کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ اس کے زیادہ تر ارکان وہ ہیں جن کے خلاف مقدمات ہیں یا جو ضمانتوں پر ہیں۔ جس سے عوام میں حکومت کا اچھا تاثر نہیں جاتااور وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف ایک ایسے شخص ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے بات کر بھی لیتے ہیں اور سن بھی لیتے ہیں۔
اس وقت ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ شاید اس وقت تک، جب تک یہ طے نہیں ہو جاتا کہ یہ حکومت کب تک رہے گی اور الیکشن کب ہوں گے، نواز شریف یا مریم نواز کو کوئی نمایاں کردار نہیں دیا جائےگا۔ وہ جو کچھ بھی کریں گے، پس پردہ رہ کر ہی کریں گے۔ حالات حاضرہ کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اپنی حکومت کی بقا اور آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر بہتر نتائج کے حصول کے لیے شہباز شریف کو کرنا بھی یہی چاہئیے۔