بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار کے متنازع بیانات کے بعد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور جمعے کی نماز کے بعد دار الحکومت دہلی سمیت متعدد ریاستوں میں مظاہرے کیے گئے ہیں جن میں دونوں رہنماوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
جامع مسجد دہلی کے جنوبی دروازے کی سیڑھیوں پر ، جسے گیٹ نمبر ایک کہا جاتا ہے، بڑی تعداد میں لوگوں نے اکٹھے ہو کر مظاہرہ کیا۔پولیس کے مطابق یہ مظاہرہ پرامن تھا۔ تاہم کسی ناخوش گوار واقعے کی روک تھام کے لیے مظاہرین کو تھوڑی دیر میں وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔
یہ احتجاجی مظاہرہ 15 سے 20 منٹ تک جاری رہا جس کے بعد لوگ منتشر ہو گئے۔ رپورٹس کے مطابق اس مظاہرے کے شرکا کی تعداد کا اندازہ کم از کم 1500 افراد بتایا جارہا ہے۔ اس موقعے پر پہلے سے ہی اضافی پولیس کا بندو بست کیا گیا تھا۔
دہلی پولیس کے مطابق چوں کہ یہ مظاہرہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیا گیا تھا اس لیے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کا مظاہرہ بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی گرفتاری کے مطالبے کے لیے تھا اور جب تک وہ گرفتاری نہیں ہو جاتیں مسلمانوں کا احتجاج جاری رہے گا۔
دہلی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری کے مطابق مسجد انتظامیہ کی جانب سے احتجاج کی کوئی کال نہیں دی گئی تھی۔ لوگ از خود یکجا ہو کر احتجاج کرنے لگے۔
تاہم انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کا دستور ہر شہری کو اپنے حق کے لیے مظاہرہ کرنے اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے کا قانونی حق دیتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ کانپور میں جس طرح مبینہ طور پر یک طرفہ کارروائی ہو رہی ہے وہ ناقابل قبول ہے۔
کانپور کے مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ پولیس مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ طور پر کارروائی کر رہی ہے اور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر تشدد میں ملوث افراد کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
سید احمد بخاری نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیانات دیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی عبات گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے اس قدر بلند ہو گئے ہیں کہ وہ اب پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے لگے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معمولی معمولی باتوں پر مسلمانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ جب کہ نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
مختلف شہروں میں مظاہرے
رپورٹس کے مطابق اترپردیش کے پریاگ راج یعنی الہ آباد کے اٹالہ علاقے میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرے کے دوران پولیس سے مظاہرین کا تصادم ہوا اور دونوں طرف سے پتھراؤ بھی کیا گیا۔ تاہم کوئی بڑا ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
اترپردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ریاست میں خوش اسلوبی کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کی گئی۔ ان کے مطابق پولیس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ مذہبی شخصیات امن و امان کے قیام میں تعاون کر رہی ہیں۔
پولیس کے مطابق سہارنپور میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھا ہو کر مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس نے لاٹھی چارج کرکے بھیڑ کو منتشر کیا۔ پولیس کے مطابق صورت حال کشیدہ مگر قابو میں ہے۔
اسی طرح مرادآباد، کانپور، لکھنؤ، فیروزآباد، ممبئی اور دیگر شہروں سے بھی مظاہروں کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ کانپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ان شہروں میں پولیس حکام نے پہلے ہی مسجدوں کے اطراف میں سیکیورٹی سخت کر دی تھی۔
رپورٹس کے مطابق جھارکھنڈ کے علاقے رانچی میں مظاہرین سے تصادم کے دوران متعدد پولیس اہل کار زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ ہنومان مندر کے نزدیک پیش آیا۔
پولیس نے قابل اعتراض بیان کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا او رہوا میں گولیاں چلائیں۔ الزام ہے کہ مظاہرین نے احتجاج کے دوران پولیس پر پتھراؤ کیا تھا۔
اسی طرح کلکتہ اور حیدرآباد میں بھی مسلمانوں نے مظاہرے کیے اور نوپور شرما اور نوین کمار کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
مغربی بنگال کے مختلف علاقوں میں متنازع بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جمعرات کو ایک بیان میں نوپور شرما اور نوین کمار کے متنازع بیانات کی مذمت کی تھی۔اس کے علاوہ ریاست کرناٹک کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔