چین میں کرونا وائرس کے سبب عائد پابندیوں کے خلاف ہونے والے مظاہرے اتوار کو تجارتی شہر شنگھائی میں بھی شروع ہو گئے۔
پابندیوں کے خلاف حالیہ مظاہروں کا سلسلہ ملک کے انتہائی مغرب سنکیانگ میں ایک عمارت میں لگنے والی خطرناک آگ کے بعد شروع ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سنکیانگ کے دارالحکومت آرمچی کی بلند عمارت میں جمعرات کو لگنے والی آگ میں 10 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے نتیجے میں عوام میں اشتعال پھیل گیا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین کے مطابق آگ لگنے کے بعد عمارت میں جزوی طور پر پابندیاں لگے ہونے کے سبب رہائشی بر وقت عمارت سے نہ نکل سکے۔ تاہم حکام کی طرف سے اس الزام کو رد کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق عمارت میں لگنے والی اس آگ نے چین کے اہم حصے میں سول نافرمانی کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا ہے جس کی مثال ایک دہائی قبل شی جن پنگ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نہیں ملتی۔
SEE ALSO: دنیا کی آبادی آٹھ ارب: ’چین میں بچے کم اور بوڑھے زیادہ ہورہے ہیں‘چین کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہر شنگھائی میں ہفتے کی رات شہری ایک شاہراہ پر آگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد سے اظہار یکجہتی کے لیے اکٹھے ہوئے جو کہ اتوار کی صبح یہ اجتماع مظاہرے کی شکل اختیار کر گیا۔
احتجاج کے ارد گرد پولیس کی نفری تعینات تھی جب کہ مظاہرین نے سیاہ پیپر شیٹس تھام رکھی تھیں جو کہ سینسر شپ کے خلاف احتجاج کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔
بعد ازاں سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مظاہرین نے "آرمچی سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے،سنکیانگ سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، پورے چین سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے" کے نعرے لگائے۔
علاوہ ازیں ایک اور مقام پر لوگوں نے چین کی کمیونسٹ پارٹی اور شی جن پنگ کے خلاف ہونے والے اس مظاہرے میں ملک کی قیادت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی بھی کی گئی۔
SEE ALSO: چمگادڑوں کے قدرتی ٹھکانوں کی حفاظت سےمستقبل میں وائرس کے خطرے کو روکا جا سکتا ہے: نئی تحقیقخیال رہے کہ ایسے وقت میں کہ جب دنیا کا بیشتر حصہ کرونا وبا کے ساتھ رہنے کے لیے کوشاں ہیں، بیجنگ وبا سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالیرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
چین میں حالیہ دنوں کے دوران ریکارڈ کرونا کیسز رپورٹ کیے گئے جب کہ اتوار کو پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران لگ بھگ 40 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔
چین کی حکومت شی جن پنگ کی زیرو کرونا پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ زندگیاں بچانے اور طبی نظام کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔
چین میں حکام نے عوام کے شدید ردِ عمل اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو درپیش مسائل کے باوجود اسی پالیسی کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔