پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثوں سے متعلق سوشل میڈیا پر گمراہ کن اعدادوشمار شیئر کیے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ یہ گمراہ کن اعداد و شمار مفروضوں کی بنیاد پر بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِ خانہ کی ٹیکس تفصیلات اور مبینہ اثاثوں سے متعلق رواں ہفتے 20 نومبر کو ویب سائٹ ‘فیکٹ فوکس’ پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔
یہ تفصیلات ایسے وقت میں سامنے آئیں جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے منصب سے رواں ماہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ پر ردِ عمل میں آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ایک خاص گروپ نے نہایت چالاکی و بد دیانتی کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بہو کے والد (سمدھی) اوراہلِ خانہ کے اثاثوں کو آرمی چیف اور خاندان سے منسوب کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ یہ سراسر غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اثاثے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں ان کے سمدھی کی اہلِ خانہ نے بنائے ہیں۔ یہ قطعی طور پر حقائق کے منافی،کھلا جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی ہے۔
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، ان کی اہلیہ اور ان کے خاندان کا ہر اثاثہ ایف بی آر میں باقاعدہ ڈکلیئر ڈہے اور آرمی چیف و خاندان باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہر شہری کی طرح آرمی چیف اور ان کے اہلِ خانہ ٹیکس حکام کے سامنے اپنے اثاثہ جات سے متعلق جواب دہ ہیں۔
فیکٹ فوکس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا تھا؟
رواں ماہ 20 نومبر کو تحقیقاتی نیوز ویب سائٹ ’فیکٹ فوکس‘ پر صحافی احمد نورانی کی ایک خبر شائع ہوئی تھی، جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ان کی اہلیہ عائشہ اعجاز امجد، بہو ماہ نور صابر، سمدھی صابر حمید مٹھو اور ان کے بھائی ناصر حمید کے ٹیکس ریٹرنز اور دستاویزات کے حوالے سے ان کی جائیداد اور دیگر اثاثوں کی تفصیلات بتائی گئی تھیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی چھ سالہ مدتِ ملازمت میں ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثوں میں کئی گنا اضافہ ہوا جب کہ ان کا خاندان ارب پتی بن گیا۔
’فیکٹ فوکس‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور آرمی چیف کے عزیز صابر حمید عرف مٹھو نے رابطے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
تحقیقات کا حکم
پانچ دن قبل وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِ خانہ کی ٹیکس تفصیلات لیک ہونے کا نوٹس لیا تھا۔
وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِ خانہ کی ٹیکس ادائیگی سے متعلق دستاویزات کا ایف بی آر سے لیک ہونا ٹیکس کی معلومات کی رازداری سے متعلق قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس سنگین غفلت پر وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو طارق محمود پاشا کی سربراہی میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے، البتہ دستاویزات لیک ہونے کے ذمے دار افراد کا تعین نہیں ہوسکا ۔
وزارتِ خزانہ کے اعلامیےمیں ’فیکٹ فوکس‘ کی رپورٹ کا نام لیے بغیر کہا گیا تھا کہ چند غیر ذمہ دار افراد کی اس سنگین کوتاہی کے پیش نظر وزیرِ خزانہ نے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو طارق محمود پاشا کو ہدایت کی تھی کہ وہ ذاتی طور پر ٹیکس قانون اور ایف بی آر کے ڈیٹا کی خلاف ورزی کی فوری تحقیقات کی قیادت کریں اور اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں رپورٹ پیش کریں۔
ایف بی آر کے متعدد افسران معطل
پاکستانی حکام نے آرمی چیف اور ان کے اہلِ خانہ کی ذاتی معلومات لیک ہونے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کی رپورٹ کےمطابق اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے شعبہ ان لینڈ ریونیو کے دو افسران کو برطرف کیا گیا ہے جب کہ ڈپٹی کمشنرز ان لینڈ ریونیو عاطف نواز وڑائچ اور ظہور احمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
اس بارے میں مقامی میڈیا میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق ان افسران کے ساتھ تین انسپکٹرز کو بھی مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا ہے جن کی آئی ڈیز سے آرمی چیف کے اہلِ خانہ کی معلومات تک رسائی حاصل کی گئی تھی۔
ایف بی آر اور نادرا کے نظام میں اگر کوئی شخص کسی بھی بارے میں معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اس کا مکمل ریکارڈ اس آئی ڈی کے ساتھ موجود ہوتا ہے جس آئی ڈی سے اس شخص کی معلومات تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
مقامی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس گوشوارے کارپوریٹ ٹیکس آفس لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے لاگ ان سے ڈاؤن لوڈ ہوئے تھے۔ گوشواروں کی تصویر ڈپٹی کمشنر کے کمپیوٹر سے بنائی گئی تھی،اس بارے میں دو ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو سمیت 15 ایف بی آر افسران سےپوچھ گچھ کی جاچکی ہے۔
گرفتار ہونے والوں میں دو ڈپٹی کمشنر عاطف اور ظہور احمد بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ گرفتار ہونے والوں میں انسپکٹرز صابر،شعیب، ارسلان اور سپروائزرز فرحان گلزار، شہزاد نیاز،محمد شہزاد،کلرک منیر،عاشق اور وقاص شامل ہیں ، ابتدائی انکوائری میں ان کو معطل کر دیا گیا ہے۔
ایف بی آر نے اب تک اس ضمن میں کوئی بیان جاری نہیں کیا اور معطل افسران و اہلکاروں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔