'لاپتا افراد' کے لواحقین کا عید پر احتجاج: 'جب ہمارے اپنے ہی گھروں میں نہیں تو خوشی کیسی'

فائل فوٹو

عید تو اپنوں کے ساتھ ہوتی ہے، ہماری کیا عید ہے جب ہمارے اپنے ہی ساتھ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی عید کی خوشی ہے۔

یہ الفاظ ہیں بلوچستان سے مبینہ طور پر جبراً لاپتا ہونے والےشخص فیاض کی اہلیہ نرگس فیاض کے جو اپنے کم سن بچے کے ہمراہ شوہر کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے عید منانے کے بجائے ان کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے۔

عید کے دن کوئٹہ پریس کلب کے قریب لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نے احتجاجی ریلی نکالی جس میں بچوں، خواتین اور نوجوانوں نے شرکت کی۔

ریلی میں شریک افراد نے اپنے پیاروں کی تصاویر اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق نعرے درج تھے۔

ریلی کوئٹہ پریس کلب سے شروع ہوئی جو جناح روڈ ، منان چوک اور دیگر شاہراہوں سے ہوتے ہوئے واپس کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اختتام پذیر ہوئی۔

"باپ کی جدائی میں اب تک نومولود بچے کا نام بھی نہیں رکھا"

ریلی میں شریک بعض لوگ اپنے پیاروں کے لیے عید پر بنائے گئے نئے کپڑے اور جوتے بھی ساتھ لائے تھے۔

ریلی میں شریک لاپتا نوجوان فیاض کی بیوی نرگس فیاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کی عمر اب تقریباًؔ نو ماہ ہوچکی ہے "ہم نے اب تک فیاض کے انتظار میں اس بچے کانام نہیں رکھا۔"

ان کے بقول ،ہماری زندگی عذاب بن چکی ہے فیاض ہمارے گھر کا واحد مرد تھا جس کے بغیر گھر ویران ہے۔

نرگس کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس 30 اگست کی شام ہم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ چند سیکیورٹی اہل کار ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور میرے شوہر کو یہ کہہ کر ساتھ لے گئے کہ ضروری معلومات کے بعد واپس چھوڑ دیں گے، لیکن نو ماہ بعد بھی فیاض واپس نہیں آئے۔

اُن کے بقول اس سلسلے میں قریبی تھانے سے رابطہ کیا گیا اور پولیس نے تین ماہ بعد ہماری ایف آئی آر درج کی۔

نرگس کا مزید کہنا تھا کہ فیاض طالبِ علم بھی تھے اور ملازمت کی کوششیں بھی کر رہے تھے۔ انہیں آن لائن کاروبار کا شوق تھا۔ نہ تو اُن کی کسی سے لڑائی تھی اور نہ زیادہ دوستی وہ گھر سے باہر بھی بہت کم جاتے تھے۔

نرگس کی طرح بلوچستان سے مبینہ طور پر جبراً لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کی کہانیاں بھی کچھ مختلف نہیں ہیں جو اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں۔

سیکیورٹی ادارے بلوچستان سے جبراً گمشدگیوں کی تردید کرتے ہیں۔ اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صرف ایسے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا جاتا ہے جن پر علیحدگی پسندوں سے تعلق کا الزام ہوتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

حسیبہ قمبرانی: 'ایک بھائی مار دیا، اب دوسرا لاپتا ہے'

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا مطالبہ کیا ہے؟

پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم " وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم گزشتہ 14 برس سے ہر عید پر ریلی نکال رہے ہیں۔

اپنے خطاب میں ماما قدیر نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تو دو دہائیوں سے جاری ہے تاہم رواں سال اس میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔

یاد رہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے رواں سال جنوری میں لاپتا افراد کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی مرتب کی گئی تھی جس کے مطابق 2014 سے دسمبر 2019 تک 194 لاپتا افراد بازیاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔

ان پانچ برسوں کے دوران بازیاب ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق مکران ڈویژن سے تھا جب کہ کوئٹہ، مستونگ، قلات، خضدار، حب چوکی اور دیگر علاقوں کے لاپتا افراد بھی ان میں شامل تھے۔

تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں 102 لاپتا افراد بازیاب ہوئے جب کہ 2013 سے 2019 کے درمیان 401 افراد لاپتا ہوئے۔

سال 2019 میں بلوچستان کے علاقوں گوادر، تربت، خاران، پنجگور، نوشکی، آواران اور کوئٹہ سے 60 افراد لاپتا ہوئے جب کہ 2020 میں 207 افراد لاپتا ہوئے۔

دوسری جانب گزشتہ روز ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ سے آٹھ جون 2019 کو جبری طور پر گمشدہ ہونے والے شخص رکھیہ خان کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

رکھیہ خان کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ رکھیہ کو آٹھ جون 2019 کو شاہرگ ضلع ہرنائی سے سیکیورٹی اہل کاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

اہل خانہ کے بقول انہیں رکھیہ خان کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے خاندان ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ رواں سال بازیاب ہونے والے لاپتا افراد کا تناسب گزشتہ برسوں سے کافی کم رہا ہے۔

ان کے بقول رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں صرف 12 افراد بازیاب ہو کر گھروں کو لوٹے ہیں جب کہ گزشتہ برسوں میں ہر ماہ 15 سے 20 لاپتا افراد بازیاب ہوتے تھے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رواں سال یہ شرح بہت کم ہے۔

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

دوسری جانب لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 31 جنوری 2022 تک 6163 کیسزنمٹائے۔ کمیشن کو 31 دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر 8381 کیسزموصول ہوئے تھے جب کہ جنوری میں مزید 34کیس موصول ہوئے جس کے باعث مجموعی کیسز کی تعداد 8415 ہو گئی ہے۔

دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کا لاپتا افراد کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مؤقف ہے کہ اکثر لاپتا افراد بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور بعض نے کالعدم عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اخیار کررکھی ہے اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔