بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک 9 سالہ دلت بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی، قتل اور پھر زبردستی اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے مبینہ واقعے پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا یہ واقعہ دہلی کے نواحی گاؤں پرانا ننگل میں پیش آیا ہے۔ اس معاملے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں مذکورہ گاؤں کے ایک شمشان گھاٹ کا پجاری رادھے شیام بھی شامل ہے۔
شمشان گھاٹ کے پجاری کے ساتھی لکشمی نرائن اور کلدیپ اور گاؤں کے ایک رہائشی سلیم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
گرفتار ملزمان کے خلاف جنسی زیادتی، قتل، مجرمانہ سازش، شواہد کے اتلاف اور بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے والے قانون ”پوکسو“، شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب (ایس سی ایس ٹی) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
حزب اختلاف کی جانب سے اس واقعے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں دارالحکومت دہلی کی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے اور دہلی میں امن و امان کے قیام کی ذمے داری بھی مرکزی وزارتِ داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔
حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے بدھ کی صبح متاثرہ خاندان سے ملاقات بھی کی ہے۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان انصاف چاہتا ہے۔ ان کی مدد کی جانی چاہیے۔
اس کے بعد انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بچی کے والدین کے آنسو صرف ایک بات کہہ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی ملک کی بھی بیٹی ہے، اسے انصاف ملنا چاہیے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دارالحکومت میں قانون کے نفاذ کی صورت حال بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس واقعہ کو انتہائی شرمناک قرار دیا اور واقعے کے ذمے داروں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
وزیر اعلیٰ کیجری وال نے بھی متاثرہ خاندان سے ملاقات کر چکے ہیں۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور حزب اختلاف کی اور جماعت ترنمول کانگریس کے ابھیشیک بنرجی اور ڈیرک او برائن نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور دہلی میں امن و امان کی صورت حال پر وزیر داخلہ امت شاہ پر نکتہ چینی کی ہے۔
علاوہ ازیں حزب اختلاف کے اراکین نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر احتجاج کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پولیس کی خواتین کمیشن میں طلبی
دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالی وال نے جنوب مغربی دہلی کے ڈپٹی کمشنر پولیس کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں پانچ اگست کو کمیشن میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ہے۔
نوٹس میں ڈپٹی کمشنر پولیس کو ایف آئی آر کی نقل بھی ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔ کمیشن نے ملزموں کی تفصیلات اور کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
دہلی خواتین کمیشن نے اس واقعے کو انتہائی سنگین، شرمناک اور فوری توجہ کا متقاضی قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
حکمران جماعت کا مؤقف
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان ڈاکٹر سمبت پاترا نے ایک نیوز کانفرنس کرکے اس واقعے کی مذمت کی اور کہا ہے کہ قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ پولیس اہل کاروں نے چار افراد کو گرفتار کیا ہے اور پولیس متاثرہ خاندان کے گھر بھی گئی ہے۔
انہوں نے راہول گاندھی کی متاثرہ خاندان سے ملاقات کو سیاست قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ وہ کانگریس کے اقتدار والی ریاستوں میں دلت خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر آواز نہیں اٹھاتے۔
بی جے پی کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ اس معاملے میں متاثرہ خاندان کو انصاف ضرور ملے گا۔
دریں اثنا جنوب مغربی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس انگت پرتاپ سنگھ نے ایک نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکی کی لاش کے پوسٹ مارٹم سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب چاروں ملزموں کا لائی ڈہٹکٹر ٹیسٹ کیا جائے گا یعنی ان کو جھوٹ پکڑنے والی مشین کا سامنا کرنا ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے کہا کہ شمشان گھاٹ پر موجود واٹر کولر کی جانچ کی گئی تو اس میں بجلی کا کرنٹ پایا گیا جس سے ملزموں کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ لڑکی کی موت کرنٹ لگنے سے ہوئی ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کہ اب لڑکی کے کپڑوں کی جانچ کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس جلد ہی اس معاملے میں فرد جرم عائد کردے گی۔ واضح رہے کہ بھارت میں قانون کے مطابق کسی کیس میں ملزم کے خلاف فردِ جرم داخل کرنے کے لیے 60 دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس معاملے میں بھی پولیس نے شروع میں جنسی زیادتی کے الزام کےسوا دیگر الزامات کے تحت کیس درج کیا تھا۔ البتہ جب اس معاملے پر احتجاج ہونے لگا اور متاثرہ خاندان نے ایس سی ایس ٹی کمیشن سے رابطہ قائم کیا تب کہیں ایف آئی آر میں جنسی زیادتی کی دفعہ کا اضافہ کیا گیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ لڑکی کی ماں نے شروع میں جنسی زیادتی کا الزام نہیں لگایا تھا۔ لیکن لڑکی کے والد اور والدہ اور مقامی باشندے پولیس کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
’صرف 25 فی صد ملزمان کو سزا ہوتی ہے‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے اترپردیش کے ہاتھرس واقعے کی یاد دلا دی ہے جہاں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی آخری رسوم اس کے والدین کی مرضی کے بغیر رات کی تاریکی میں ادا کر دی گئی تھیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسو سی ایشن‘ کی جنرل سکریٹری مریم دھاولے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعے کو وحشیانہ اور شرمناک قرار دیا۔
انھوں نے ایسے واقعات میں پولیس کی کارروائی پر عدم اطمیان کا اظہار کیا ہے۔
مریم دھاولے کے مطابق خواتین اور بچیوں کے خلاف جرائم کے معاملوں میں صرف 25 فی صد ملزموں کو سزا ہوتی ہے جب کہ 75 فی صد ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں سب سے پہلے تیزی سے کام کرنے والی عدالتیں قائم ہونی چاہیں اور ایسے مقدمات کی سماعت تیزی سے ہونی چاہیں۔
وہ عدالتی کارروائی میں تیزی کے ساتھ متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات پر بھی زور دیتی ہیں۔
ان کے مطابق ایسے معاملات میں کیس درج کرانا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ پولیس پہلے کیس ہی درج نہیں کرتی۔ بعد میں اس سلسلے میں شواہد نہیں ملتے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو پولیس اہل کار اس سلسلے میں اپنے فرض سے کوتاہی کر رہا ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن آج تک کسی بھی پولیس افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے برعکس ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جو پولیس افسر سب سے خراب کام کرتا ہے اس کی ترقی ہوتی ہے۔
سماجی کارکن شیبہ اسلم فہمی کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں بہت کم سزائیں ہو پاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ملزموں کی حمایت میں آجاتے ہیں جس کی وجہ سے قانون کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے۔
انھوں نے اس سلسلے میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے کٹھوعہ واقعے کا حوالہ بھی دیا جس میں ایک آٹھ سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس کیس میں ملزموں کی حمایت میں بہت سے لوگ سامنے آگئے تھے اور انھوں نے ملزموں کے حق میں ریلی بھی نکالی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’نربھیا واقعے‘ کے بعد حکومت نے سخت قوانین بنائے لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ جب تک ایسے مجرموں کو سخت سزائیں نہیں ملیں گی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
’آخری رسومات میں جلدی کی گئی‘
بچی کی ماں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اتوار کی شام کو اس کی لڑکی گھر سے پانچ منٹ کی دوری پر واقع شمشان گھاٹ کے واٹر کولر سے پانی لینے گئی تھی۔ اس کے والد نے اسے وہاں چھوڑا اور وہ سبزی لینے چلا گیا تھا۔
اس کے مطابق نصف گھنٹے کے بعد شمشان کے پجاری نے اسے تلاش کرکے اسے جلد شمشان آنے کا کہا۔
بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ اس نے شمشان میں لڑکی کی لاش دیکھی۔ اس کے ہونٹ نیلے تھے۔ اس کے بازو پر جلنے کا نشان تھا اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔
بچی کی والدہ نے مزید بتایا کہ پجاری نے اسے بتایا کہ واٹر کولر سے پانی لینے کے دوران کرنٹ لگ جانے کی وجہ سے لڑکی کی موت واقع ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پجاری نے ان سے کہا کہ جلد از جلد بچی کی آخری رسومات ادا کر دینی چاہئیں ورنہ پولیس آئے گی اور وہ لاش لے جائے گی۔ پھر اس کا پوسٹ مارٹم ہوگا اور ڈاکٹر اس کے اعضا نکال لیں گے۔
لڑکی کی ماں نے یہ بھی کہا کہ پجاری نے خود ہی کریا کرم کا انتظام کر دیا۔ اس نے نہ تو اس سے ’آدھار کارڈ‘ طلب کیا اور نہ ہی کریا کرم کے لیے پیسے مانگے۔ یہاں تک کہ انھوں نے لاش کو ڈھکنے کے لیے سرخ رنگ کے کپڑے کا بھی انتظام کر دیا۔
SEE ALSO: بھارت: مسلم خواتین کی آن لائن ’نیلامی‘ پر انسانی حقوق کے کارکنوں کی مذمت، کارروائی کا مطالبہلڑکی کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے شمشان گھاٹ پہنچنے کے دس منٹ کے اندر ہی اس کی آخری رسوم ادا کر دی گئیں۔ جب چتا جلنے لگی تو اس نے اپنے شوہر کو بلایا اور اس کا رونا سن کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ انھوں نے چتا کی آگ بجھائی اور بچی کی نیم سوختہ لاش کو وہاں سے باہر نکالا۔ لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تک صرف لڑکی کا ایک پیر ہی سلامت بچا تھا۔
اس کے مطابق رات کے وقت پولیس آئی اور اس نے کہا کہ وہ آخری رسوم ادا کرنے کے لیے جلد ہی لڑکی کی باقیات لواحقین کے حوالے کر دے گی۔
لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ پولیس جب رات میں پہنچی تو اس نے ملزموں کو پکڑنے کے بجائے ان لوگوں سے سوالات شروع کردیے۔
لڑکی کی ماں کا الزام ہے کہ ہم نے بہت کہا کہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ ہم لوگوں کو تھانے بلایا اور رات بھر بٹھائے رکھا۔ اگلے روز دوپہر کے وقت ہمیں وہاں سے جانے دیا گیا۔
متاثرہ خاندان اور پڑوسیوں کا الزام ہے کہ پولیس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے کیس درج کرکے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور اس معاملے میں جو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔