انسانی حقوق کے کارکنوں، خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رضاکاروں اور صحافیوں نے بھارت میں مسلمان خواتین کی تصاویر اور اُن سے متعلق معلومات بغیر اجازت انٹرنیٹ پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے 'سلی ڈیلز' نامی ایک ایپ پر ایک سو سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر پوسٹ کر کے ان کی ’نیلامی‘ کی جا رہی تھی۔ تصاویر کے ساتھ ان خواتین کی نجی زندگی کی تفصیلات بھی ڈال دی گئی تھیں۔ یہ تفصیلات ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لی گئی تھیں۔
مبصرین کے مطابق یہ کوئی حقیقی نیلامی نہیں تھی بلکہ یہ مسلم خواتین کی تضحیک و تذلیل کا ایک طریقہ تھا۔ اس سے قبل عید الفطر کے موقعے پر بھی ٹوئٹر پر متعدد مسلم خواتین کو 'آن لائن برائے فروخت' کے زمرے میں ڈالا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لفظ ’سُلی‘ ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جسے دائیں بازو کے ہندوتوا نواز عناصر مسلم خواتین کو آن لائن ٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بھارت کے قومی کمیشن برائے خواتین کی سابق رکن ثمینہ شفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی لوگوں کی ذہنیت نہیں بدلی ہے۔ ٹوئٹر پر مسلم خواتین کی تصاویر پوسٹ کرکے ان کی 'نیلامی' کرنا انتہائی شرمناک ہے۔
ان کے مطابق یہ صرف مسلم خواتین کی بات نہیں ہے بلکہ پوری عورت ذات کی بات ہے اور ایسی کوئی بھی حرکت کسی بڑی سیاسی شخصیت کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر اس حرکت کے ذمہ داروں کو سیاسی تحفظ حاصل نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس معاملے میں تاحال کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ثمینہ شفیق کے بقول جب اس معاملے پر ٹوئٹر پر بہت احتجاج ہوا تب کہیں جا کر ایف آئی آر درج ہوئی اور متعلقہ ایپ کو ہٹایا گیا۔ پولیس کی جانب سے رپورٹ درج کر لینا محض ایک قانونی خانہ پری ہے اور کچھ نہیں۔
خیال رہے کہ جب دہلی خواتین کمیشن کی جانب سے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا گیا اور اس سے کارروائی رپورٹ طلب کی گئی تب کہیں جا کر دہلی پولیس کے سائبر سیل نے اس معاملے پر ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔
خواتین کمیشن نے سائبر سیل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ نامعلوم گروپ کی جانب سے ’گِٹ ہب‘ نامی ایک پلیٹ فارم کی مدد سے سیکڑوں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر چار جولائی کو اپ لوڈ کی گئیں اور اسے ’سلی ڈیلز‘ کا نام دیا گیا۔
کمیشن نے ایف آئی آر کی نقل، اس معاملے میں جن ملزموں کی شناخت کی گئی ہے ان کی تفصیلات اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اس کی معلومات طلب کی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق اس معاملے میں تاحال کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
ثمینہ شفیق خواتین کمیشن کی اس کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں۔
’حکومت خاموش کیوں؟‘
وہ کہتی ہیں کہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس معاملے پر حکومت کی جانب سے مکمل طور پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کمیشن سے کوئی بہت زیادہ امید نہیں ہے۔ لیکن انسانی حقوق کمیشن نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔
ان کے بقول اس معاملے پر نہ تو مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی بیان آیا ہے اور نہ ہی دہلی حکومت کی جانب سے۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے وزیر کو اس سلسلے میں اپنے طور پر کارروائی کرنی چاہیے اور ایک تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے۔
انھوں نے وزیر اعظم کی خاموشی پر بھی اظہار حیرت کیا اور کہا کہ وہ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کی مہم چلا رہے ہیں، وہ کیوں خاموش ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتی امور کے وزیر بھی خاموش ہیں اور اقلیتی کمیشن کا بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرائے تاکہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو بھی سامنے لایا جا سکے جو انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آج مسلم خواتین کی تصاویر کی نیلامی ہو رہی ہے کل کسی اور طبقے کی خواتین کی نیلامی ہوگی۔
ثمینہ شفیق کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں معاشرے کی سوچ بھی ذمہ دار ہے۔ جس طرح ایک فرقے کے خلاف ماحول بنا دیا گیا ہے وہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ آئین شہریوں اور خاص طور پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی جو گارنٹی دیتا ہے اس پر عمل کیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
’مسلم خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے‘
سماجی کارکن شیبہ اسلم فہمی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کرتی ہیں کہ معاشرے میں مجرمانہ ذہنیت کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہو گئی ہیں اور ایک طبقے کو یہ یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ وہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی جرم کرتے ہیں تو بے فکر رہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
ان کے مطابق ہم نے ایسے کئی معاملات دیکھے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی جرم ہوتا ہے تو دائیں بازو کے لوگ ملزموں کی حمایت میں آجاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مسلم خواتین کی نیلامی کا معاملہ تو نمایاں ہو گیا لیکن سچائی یہ ہے کہ مسلم خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے ہیں۔ کشمیری خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
خیال رہے کہ ایسی شکایات پر ماضی میں بھارتی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ مذہب یا طبقے کے نام پر کسی کے خلاف کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتی اور اگر کوئی شخص غیر قانونی کام کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک تمام شہری برابر ہیں اور وہ اکثریت اور اقلیت میں کوئی فرق نہیں کرتی۔
بھارتی حکومت تواتر کے ساتھ یہ یقین دہانی کراتی رہی ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور حقوق حاصل ہیں اور اُن کے خلاف کسی بھی اقدام پر قانون حرکت میں آتا ہے۔
سماجی و صحافی تنظیموں کا ردِعمل
آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسو سی ایشن بنگلور نے اتوار کو ایک بیان جاری کر کے مذکورہ ایپ اور ویب سائٹ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ مسلم خواتین کی ”آن لائن سیل“ لگانا گندی اور گھناؤنی ذہنیت کی عکاسی ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان میں مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کی خبر پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے مسلم خواتین کے ساتھ انتہائی تضحیک آمیز رویہ قرار دیا۔
ایڈیٹرز گلڈ نے ڈیجٹل میڈیا کا غلط استعمال کرکے خاتون صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات پر بھی اظہار تشویش کیا۔
یادرہے کہ دہلی میں ہونے والے فسادات کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی فاطمہ خان کی تصویر بھی مذکورہ ایپ پر پوسٹ کی گئی تھی۔ فاطمہ خان نیوز ویب سائٹ ”دی پرنٹ“ کی سینئر نمائندہ ہیں۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں سوال کیا کہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی۔ مسلم مردوں کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کر دیا جاتا ہے اور مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی جاتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب رکے گا۔
ایک پائلٹ حنا محسن خان کی تصویر بھی اس ایپ پر ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں اتف آئی آر درج کروائی ہے۔
یاد رہے کہ گٹ ہب نے شکایات موصول ہونے کے بعد سلی ڈیلز نامی ایپ اپنے پلیٹ فارم سے ہٹادی ہے لیکن اس سے قبل یہ ایپ کم از کم پندرہ بیس دنوں تک گٹ ہب پر موجود رہی۔
دریں اثنا دنیا بھر سے دو سو کے قریب اداکاروں، موسیقاروں اور صحافیوں نے فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کے مالکان کو ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ وہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔