پاکستان میں عام انتخابات کے اعلان کے بعد سے مختلف سیاسی جماعتیں ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے میں اب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سب سے آگے ہے جن کے بیرونِ ملک مقیم کارکن اور رضا کار پاکستان میں عائد پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی جماعت کی تشہیر کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے اتوار کو آن لائن جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو مبینہ طور پر نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی کم تھی جب کہ کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک صارفین کو رسائی میں بھی دشواری کا سامنا رہا۔
اس بارے میں ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ آن لائن اسمبلی پر پابندیاں بالکل اسی طرح آئین اور قانون کے خلاف ہیں جیسے کسی بھی مقام پر اجتماع کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کا حق ہے اور اسے روکنا خلاف قانون ہے۔
میڈیا رپورتس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سوشل میڈیا سائٹس کی مبینہ بندش کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کی شب پاکستان میں یوٹیوب، فیس بک، ایکس، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کی شکایات سامنے آئی تھیں۔
اتوار کی رات رات نو بجے پی ٹی آئی کا آن لائن جلسہ شروع ہونے کے بعد صارفین کو ان سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
اس کے باجود پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ورچوئل جلسے میں فیس بک پر 14 لاکھ، یوٹیوب پر 12 لاکھ، ایکس لائیو اسٹریمنگ پر 10 لاکھ اور اسپیس پر 15 لاکھ افراد نے یہ جلسہ دیکھا اور ایکس پر پہلے چار ٹاپ ٹرینڈ اس جلسے سے متعلق تھے اور ایکس پر 65 لاکھ سے زائد پوسٹس کی گئی تھیں۔
انٹرنیٹ پر نظر رکھنے والے ڈیجیٹل رائٹس، سائبر سیکیورٹی اور بہتر طرز حکمرانی کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم 'نیٹ بلاکس' نے پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی میں خلل کی تصدیق کی ہے۔
نیٹ بلاکس نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ لائیو میٹرکس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بھر میں صارفین کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک، انسٹا گرام اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا تک رسائی میں دشواری کا سامنا رہا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہوا جب عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے والے اپوزیشن لیڈر کی جماعت تحریکِ انصاف نے آن لائن ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا تھا۔
انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے اور سوشل میڈیا تک صارفین کی رسائی روکنے پر پی ٹی آئی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس کی پہلے سے توقع تھی۔
تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ انہوں نے آن لائن جلسہ اس لیے کیا کیوں کہ اس کے کارکنوں اور دو ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اجتماعات کے خلاف حکومت کا کریک ڈاؤن مسلسل جاری ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار کم کر دی اور سوشل میڈیا تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا کیں اور یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے آن لائن جلسے سے قبل کیا گیا۔
ان اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت عمران خان کی اور تحریکِ انصاف کی بے مثال شہرت سے خوف زدہ ہے۔
'آن لائن جلسہ روکنا عام جلسہ روکنے کی طرح ہے'
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والے میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی کے اسد بیگ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل اسمبلی بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی عام جلسہ کیا جاتا ہے اور ایسی اسمبلی کو روکنے کی کوشش بھی ایسے ہی آئین اور قانون کے خلاف ہے جیسے کسی عام سیاسی جماعت کو جلسہ سے روکا جائے۔
اسد بیگ نے کہا کہ یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی سیاسی جماعت خود کو مشہور اور قابلِ ذکر بتانا چاہتی ہے تو صرف یہ آن لائن جلسہ ہی نہیں دیکھا جائے گا بلکہ بعض خواتین صحافیوں کے خلاف مہم چلانے کے الزامات کا بھی تذکرہ ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ آئیڈیا اتنا قابل ذکر نہیں ہے کیوں کہ ماضی میں پی ٹی آئی کی خواتین کے خلاف جو مہم چلائی گئی تو اس میں بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے لوگ شریک تھے۔ لیکن اس طرح کے اجتماع میں بوٹس (فرضی اکاؤنٹس) کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جس سے امکان پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تعداد زیادہ دکھانے کے لیے ان بوٹس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
'خدشہ ہے کہ انتخابات کے قریب سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند ہو سکتے ہیں'
سینئر صحافی اور سوشل میڈیا پر اپنا آن لائن پروگرام کرنے والے صحافی اعزاز سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے خدشہ ہے کہ انتخابات سے ایک دو روز قبل کہیں حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کو بند نہ کردیا جائے۔"
اُن کے بقول اس وقت تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو ٹرینڈنگ بنانے کی ماہر ہے اور سوشل میڈیا پر چیزوں کو کس طرح پیش کرنا ہے، یہ صرف پی ٹی آئی ہی جانتی ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے آگے ہے۔
اعزاز سید نے کہا کہ وہ یہ بات معلومات کی بنیاد پر نہیں بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں اندازے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کیوں کہ ماضی میں دیگر ممالک میں ایسے الزامات لگتے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا انتخابات پر اثرانداز ہوا ہے۔
اعزاز سید نے کہا کہ اس وقت طاقت ور حلقوں سے جو ایک چیز کنٹرول نہیں ہو رہی وہ سوشل میڈیا ہی ہے۔ اس کی طاقت سے کسی کو انکار نہیں ہے، پاکستان میں فیس بک سے تقریباً نو کروڑ لوگ، ایکس سے پانچ سے چھ کروڑ لوگ جڑے ہوئے۔
اُن کے بقول 2013 اور 2018 کے انتخابات کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کیبل اور نان کیبل ایریا کے انتخابات ہیں یعنی ان علاقوں میں جہاں کیبل ٹی وی موجود تھا اور جہاں کیبل ٹی وی موجود نہیں تھا ان کا الیکشن کہا جاتا تھا۔ لیکن اب جو انتخابات ہوں گے انہیں انٹرنیٹ اور نان انٹرنیٹ ایریاز یا پھر سوشل میڈیا اور نان سوشل میڈیا ایریاز کا الیکشن کہا جائے گا۔
اعزاز سید نے کہا کہ بیرون ملک جو فورس پی ٹی آئی کے پاس ہے وہ کسی اور سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ ایسے رضاکار جو بیرون ملک بیٹھے ہیں انہیں کسی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔