پی پی پی اور پی ٹی آئی کے ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف مارچ؛ مطالبات اور مقاصد کیا ہیں؟

پیپلز پارٹی کےعوامی مارچ کا آغاز کراچی سے ہوا ہے جو کہ آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچے گا جب کہ تحریک انصاف حقوقِ سندھ مارچ گھوٹکی سے شروع ہوا اور یہ سات مارچ کو کراچی میں ختم ہوگا۔

سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کا وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ’عوامی مارچ‘ شروع ہو گیا ہے۔ مارچ کا آغاز کراچی میں بلاول ہاؤس سے ہوا جو شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا بدین کی جانب جا رہا ہے جہاں مارچ کے شرکا قیام کریں گے۔

پیپلز پارٹی کا عوامی مارچ آٹھ مارچ کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد پہنچے گا۔مارچ کے شرکا پیپلز پارٹی کے جھنڈے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں جب کہ وہ حکومتی کی پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے ہیں۔

مارچ کے آغاز سے قبل پیپلز پارٹی نے 38 مطالبات کی فہرست پیش کی ہے جس کے مطابق ہر سطح پر شفاف اور آزاد انتخابات کا انعقاد، 1973 کے آئین کے تحت حکومت کا نظم و نسق چلانے، آئین میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مقرر اختیارات کے اصولوں کی پاسداری اور تمام اداروں کے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات کو جانچا شامل ہے۔

پیپلز پارٹی نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973 کے آئین میں دیے گئے کردار کا ازسر نو تعین کیا جائے۔

پی پی پی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جب کہ آزاد اور قابلِ احتساب عد لیہ کو بھی یقینی بنایا جائے۔

’مرکزی حکومت اعتماد کھو چکی ہے اسے ہٹانے کے لیے جمہوری انداز اپنائیں گے‘

مارچ کے آغاز پر خطاب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےکا کہنا تھا کہ حکومت کی غلط معاشی پالیسی سے لوگوں کا روزگار ختم ہو رہا ہے۔ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی بنیادوں، فیڈریشن اور لوگوں کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ کسانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ مزدوروں کو کام میسر نہیں جب کہ تاجروں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین خود کو غیر محفوظ تصور کررہی ہیں اور مذہبی اقلیتوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند سال پاکستان کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں جس سے معاشرے کے غریب اور امیر طبقات میں فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کے مقاصد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت پہلے بھی ڈکٹیٹر شپ اور فاشسٹ حکومتوں کا سامنا کر چکی ہے اور اب بھی مل کر اس حکومت کی پالیسی کے خلاف لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے نکلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اعتماد کھو چکی ہے اور اب اس کے برقرار رہنے کا کوئی اخلاقی، قانونی اور سیاسی جواز نہیں بچا۔

انہوں ںے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی صرف قانونی اور جمہوری انداز ہی سے اس حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے کیوں کہ وہ جمہوری بالادستی پر مکمل یقین رکھنے والی جماعت ہے۔

تحریک انصاف کا حقوق سندھ مارچ؛ ’ پیپلز پارٹی صوبے میں 14 سالہ اقتدار کا حساب دے‘

ادھر دوسری جانب سندھ میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت اور وفاق میں برسرِ اقتدار تحریک انصاف کی جانب سے بھی ہفتے سے ’حقوق سندھ مارچ‘ جاری ہے۔

سندھ کے شہر گھوٹکی سے شروع ہونے والے اس مارچ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین شریک ہیں جب کہ سندھ اور وفاق میں تحریک انصاف کے اتحادی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے رہنما بھی مارچ میں شریک ہیں۔

مارچ کے شرکا نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب سکھر میں گزارنے کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اتوار کی رات جیکب آباد میں مارچ رکے گا۔تحریک انصاف کے ’حقوقِ سندھ مارچ‘ سات مارچ کو کراچی میں ختم ہوگا۔

شکار پور بائی پاس پر مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ سندھ میں 14 سال سے برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی سے حساب لینے آئے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے لوگ اب پیپلز پارٹی کی ناکام حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں جنہوں نے سندھ میں نفرت کے بیج بوئے، لسانیت اور نفرت کی سیاست کو ہوا دی گئی۔ صوبے میں اس جماعت کی حکومت کی کارکردگی صفر رہی۔

واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی ماضی میں پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے، ان کا خطاب میں مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اب ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جماعت نہیں رہی ۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں بھی اب تبدیلی آئے گی۔

’ پیپلز پارٹی کے سامنے کئی بڑے چیلجنر ہیں‘

سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کا تیسرا بڑا مارچ کرنے نکلی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف بھی پیپلز پارٹی کے مارچ کے اثرات زائل کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ میں اپنے بہتر تشخص کے لیے میدان میں ہے۔

مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے جہاں پنجاب میں عوامی اجتماعات سے خطاب شروع کر دیا ہے وہیں ان کا جلد کراچی دورے کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

SEE ALSO: کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین کی ملاقات تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟

حالیہ سیاسی پیش رفت کے حوالے سے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو عمران خان کی شکل میں غیر روایتی مخالف کا سامنا ہے جو اب بھی ملک کے نوجوانوں میں کسی حد تک مقبول ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں ووٹ بینک میں کمی کا سامنا ہے۔

عوامی مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے ہوم گراؤنڈ کے علاوہ پنجاب میں لوگوں میں بہت زیادہ تحریک پیدا کرنے میں اب بھی کافی پیچھے ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے بعض فیصلوں نے پنجاب میں اس جماعت کی مقبولیت کی کمی میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کے خیال میں بلاول بھٹو زرداری کے سامنے کئی بڑے چیلجنز موجود ہیں اور ان کو اتنا آسان نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب بھی کھیل کا حصہ ہے اور اسی لیے وہ ایک بار پھر میدان میں تیاری کے ساتھ اترے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ مارچ کی میڈیا کوریج کے ذریعے اپنے بیانیے کو زیادہ سے زیادہ عوام کے سامنے لائیں البتہ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں مالی اور اختیارات کے لحاظ سے بہت مضبوط ہو چکی ہیں اور اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اس کے باوجود سندھ میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے۔

مجاہد بریلوی کا کہنا تھا کہ دوسری جانب تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ وہ کراچی میں انتخابی وعدے کے طور پرسرکلر ریلوے کی تعمیر مکمل کرائے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح صوبے کے مختلف علاقوں جیسا کہ تھرپارکر اور کراچی میں صحت کارڈز کی تقسیم کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت منصوبہ بندی کرنے سنجیدہ نظر آرہی ہے تاکہ پیپلز پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں ٹف ٹائم دیا جاسکے۔