|
اسلام آباد میں ایک حملے میں زخمی ہونے والے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما گیلا من وزیر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئے۔ گیلا من وزیر کا شمار پی ٹی ایم کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
گیلا من وزیر کو ہفتے کی رات اسلام آباد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُن کے ساتھیوں نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے رہنما آزاد داوڑ اور اُن کے ساتھیوں کو نامزد کیا تھا۔
تشدد کی وجہ سے گیلا من وزیر کے سر اور جسم کے دیگر حصوں میں شدید زخم آئے تھے جس کے بعد اُنہیں اسلام آباد کے پمز اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ بدھ کی شب دم توڑ گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق گیلا من وزیر اور آزاد داوڑ کے درمیان عید کے پہلے دن گاڑی کی ٹکر کی وجہ سے تکرار ہوئی تھی اور اس وجہ سے آزاد داوڑ اور ان کے ساتھیوں نے اسلام آباد میں گیلا من وزیر پر ڈنڈوں سے حملہ کیا۔
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے اسپتال میں جمع ہونے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے گیلا من وزیر کی موت کا اعلان کیا۔
گیلا من وزیر کون تھے؟
افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے حضرت نعیم جو گیلا من وزیر کے نام سے مشہور تھے پاکستان، افغانستان سمیت دنیا بھر میں موجود پشتون کمیونٹی میں مقبول تھے۔ منظور پشتین اور علی وزیر کے بعد اُن کا شمار پی ٹی ایم کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
تحصیل رزمک کے علاقے اسد خیل کے ایک نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے گیلا من وزیر 2018 میں بحرین میں مقیم تھے جب منظور پشتین اور علی وزیر نے پی ٹی ایم کی بنیاد رکھی۔
پی ٹی ایم کے رہنما عالمزیب محسود کے مطابق بحرین میں قیام کے دوران گیلا من وزیر نے نہ صرف پی ٹی ایم میں شمولیت اختیار کی بلکہ بحرین سے واپس آ کر کئی جلسوں اور ریلیوں میں انقلابی شاعری اور نظمیں بھی سنایا کرتے تھے۔
انٹر پول کے ذریعے گرفتاری
گیلا من نے پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ حکومتِ پاکستان نے ان کی گرفتاری میں انٹرپول سے مدد مانگی تھی۔ ان کی گرفتاری چھ فروری 2020 کو بحرین سے انٹر پول کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی اور انہیں اسی سال آٹھ مارچ کو پاکستان منتقل کر دیا گیا تھا۔
اُن پر الزام تھا کہ وہ اپنی شاعری اور بیانات کے ذریعے ریاست مخالف جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور بحرین میں رہتے ہوئے پی ٹی ایم کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما عید رحمان کے بقول گیلا من 2020 سے 2023 تک کئی بار گرفتار ہوئے تھے۔ گرفتاری کے بعد وہ چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں بھی رہے۔ جب کہ دوران قید انہوں نے پشاور اور بنوں کے علاوہ کچھ وقت ملتان کے جیل میں بھی گزارا تھا۔
پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے مطابق اسلام آباد میں آزاد داوڑ کے کئی دوستوں نے گیلا من پر حملہ کیا اور انہیں اتنا مارا کہ اسلام آباد کے ڈاکٹر ان کا علاج کرنے سے قاصر رہے جب کہ ان پر پاکستان سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی۔
منظور پشتین نے پہلے دن گیلا من وزیر کی صحت کے بارے میں ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد کے پمز اسپتال میں گیلا من کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔
اسلام آباد میں مقدمہ درج
اسلام آباد کے سنگجانی تھانے میں گیلا من وزیر پر حملے کا مقدمہ ضمیم خان کی مدعیت میں آزاد داوڑ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
تھانہ سنگجانی کے ایس ایچ اور عاشق خان نے 10 جولائی کو بتایا کہ اس مقدمے کا ملزم معلوم ہے اور انہوں نے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ حاصل کر لی ہے۔ تاہم ملزم مفرور ہے جس کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔
پولیس افسر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں مزید کہا کہ وہ مبینہ ملزم اور اس کے دوستوں کے پیچھے پولیس کو شمالی وزیرستان بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جلد ہی وہ اس کیس کے ملزمان کو گرفتار کر لیں گے لیکن پولیس نے بتایا کہ انہیں ابھی تک وزیرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقدمات اور سیاسی پس منظر
گیلا من وزیر کے خلاف مقدمات کا اندراج دیگر ساتھیوں سمیت 2019 میں ہوا تھا تاہم ان کی گرفتاری کے لیے 27 جنوری 2020 کو انٹر پول سے رابطہ کیا گیا اور اسی بنیاد پر چھ فروری 2020 کو انہیں بحرین سے گرفتار کیا گیا۔
اُنہیں آٹھ مارچ 2020 کو بحرین سے پاکستان منتقل کر کے سیکیورٹی اداروں کے حوالے کیا۔ وہ لگ بھگ دو سال تک جیل میں رہے تھے۔ ان کی رہائی عدالتی احکامات کے تحت ہوئی تھی۔
پی ٹی ایم رہنماؤں کے مطابق گیلا من وزیر کی میت شمالی وزیرستان پہنچائی جائے گی اور راستے میں مختلف مقامات پر موجود لوگوں کو اُن کی میت کا دیدار کرایا جائے گا۔