پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ 'مائی ری' اس وقت مختلف وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ گزشتہ ماہ جب ڈرامہ نشر ہوا تو اس کی ابتدائی اقساط میں چائلڈ میرج دکھائی گئی لیکن جب ڈرامے میں کم عمر لڑکی کو حاملہ دکھایا گیا تو اس پر تنازع کھڑا ہو گیا۔
مصنفہ ثنا فہد کا لکھا گیا ڈرامہ 'مائی ری' کم عمری میں شادی کے گرد گھومتا ہے جس کی رواں ہفتے نشر ہونے والی اقساط مرکزی کردار عینی (عینا آصف) کے گرد گھومتی ہیں جسے 15 برس کی عمر میں حاملہ دکھایا گیا ہے۔
آغاز میں ڈرامے میں ٹین ایجر اداکاروں کو مرکزی کردار میں کاسٹ کرنے پر شور مچا تھا لیکن ڈرامہ آن ائیر ہونے کے بعد اس کی ہدایت کاری، کردار نگاری اور اداکاری کو کافی پسند کیا گیا اور شائقین اس پر ہونے والی تنقید کو بھول گئے۔
لیکن حالیہ قسط کے بعد سوشل میڈیا پر ایک اور بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ آیا یہ ڈرامہ کم عمری کی شادی کے حق میں ہے یا خلاف؟ اور اس میں کیا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
بعض صارفین کے خیال میں یہ ڈرامہ تو پہلے ہی دن سے چائلڈ میرج کے حق میں تھا تو کسی کے خیال میں اس میں دکھائے جانے والے گھریلو معاملات بھارتی ٹی وی ڈراموں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
بعض صارفین نے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی عینا آصف اور ان کے والدین پر بھی تنقید کی۔ صارفین کے خیال میں 15 سالہ بچی کے والدین کو اس قسم کا ڈرامہ کرنے سے اسے روکنا چاہیے تھا۔
ایک صارف نے کہا کہ ڈرامے میں اس عمر میں قربت دکھانا بہت ہی حساس ہے اور اس طرح کے موضوعات کو دکھاتے وقت بھی اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے۔
ڈرامے میں ٹین ایجر کو حاملہ دکھانا صحیح نہیں ہے۔
'پہلے دن سےہی اندازہ تھا کہ ڈرامہ نشر ہوتے ہی بحث ہو گی'
ڈرامےکی کہانی 14 سالہ عینی اور ان کے 16 سالہ کزن فاخر کے گرد گھومتی ہے جن کی شادی ان کی مرضی کے بغیر لڑکے کے باپ کے کہنے پر کردی جاتی ہے۔
عینی کا کردار ڈرامے میں اداکارہ عینا آصف اور فاخر کا کردار اداکار ثمر عباس نے نبھایا ہے۔ ڈرامے میں یہ بھی دکھایا گیا کہ کم عمر ہونے کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور گھریلو جھگڑوں کے باوجود ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں۔
'مائی ری' کے ہدایت کار میثم نقوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرامے میں 'ارلی میرج' کو کہیں بھی سپورٹ نہیں کیا گیا۔ انہیں پہلے ہی دن سے اندازہ تھا کہ ڈرامے کے نشر ہوتے ہی اس پر بحث شروع ہو جائے گی۔
ان کے بقول "جس دن سے مائی ری کی شوٹنگ ہوئی ہمیں پتا تھا کہ اس میں کیا دکھانا ہے اور کیسے دکھانا ہے۔ یہ ڈرامہ پہلے ہی دن سے ارلی میرج پر بنا تھا جو شہروں میں ایک عام سی بات ہے۔ کہیں رسم و رواج کی وجہ سے جلدی شادی ہوتی ہے تو کہیں پابندیوں کی وجہ سے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ چائلڈ میرج کے موضوع پر ڈرامہ بنانا بالکل آسان نہیں تھا۔ پوری ٹیم کو اندازہ تھا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ اسی لیے کاسٹنگ کے وقت ہی دونوں اداکاروں کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا اور ڈرامے میں بھی انہیں اس شادی سے راضی نہیں دکھایا گیا تھا۔
ڈرامے کے ہدایت کار کے خیال میں اگر کوئی ڈرامہ کسی قسم کی بحث کا آغاز کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ارلی میرج پر بات کرنا وقت کی ضرورت تھی اور جب تک ایشو پر بات نہیں ہو گی تو اسے سمجھا کیسے جائے گا۔
ہدایت کار کا یہ بھی کہنا تھا کہ چوں کہ ڈرامہ ارلی میرج اور کم عمری میں ماں بننے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے گرد گھومتا ہے اس لیےاس میں مرکزی کردار کی پریگننسی کو دکھانا ضروری تھا۔
ان کے بقول "جلدی شادی اور جلدی بچہ ہی تو چائلڈ میرج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ اس سے لڑکی کی صحت اور زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ ڈرامے میں بھی آگے یہی سب کچھ دکھایا جائے گا۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈرامہ دیکھ کر ناظرین چیخ رہے ہیں تو اس سے ڈرامے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے کیوں کہ ہم یہی تو دکھانا چاہ رہے تھے ۔
'عینا اور ثمر کی ہمت کی داد دینی چاہیے، جنہوں نے مشکل کردار نبھانے کی ہامی بھری'
شوبز صحافی ماہین عزیز نے 'مائی ری' پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے کو طریقے سے بنایا گیا ہے جس میں تمام اداکاروں خاص طور پر ثمر عباس اور عینا آصف نے آؤٹ پرفارم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس خلوص سے دونوں کم عمر اداکاروں نے اپنے کردار نبھائے وہ محسوس ہورہا ہے۔
ماہین عزیز کے خیال میں 15 برس کی عمر میں ماں بننا کوئی نئی بات نہیں، پرانے وقتوں میں ایسا ہی ہوتا تھا اور یہ اس سے بہتر وقت نہیں تھا کہ اس بات کی نشاندہی کرکے لوگوں کو اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہ کیا جائے۔
ان کے بقول جو لوگ ڈرامے پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں اگر وہ خود کو کرداروں کی جگہ رکھ کر سوچیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ایسا واقعی ہوتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ جب ڈرامے میں لڑکی کا باپ دوسری شادی کررہا تھا اس وقت کوئی کچھ کیوں نہیں بولا؟ صرف حاملہ ہونے پر ہی تنقید کرنا درست نہیں۔
انہوں نے انڈر ایج شادیوں کو معاشرے کی حقیقت قرار دیا اور کہا کہ اگر اس ڈرامے میں مڈل کلاس کے بجائے لوور کلاس دکھائی جاتی تو کوئی اس پر پابندی کی بات نہ کرتا چوں کہ اس میں ہمارا معاشرہ دکھایا گیا ہے جبھی اس پر پابندی کی بات ہورہی ہے۔