روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے کہا ہے کہ شام میں شہریوں کے جانی نقصان کی ذمے داری ’’باغیوں اور ان کے غیر ملکی حامیوں‘‘ پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ صدر بشار الاسد پر۔
منگل کو جرمنی کے روزنامہ ’بلڈ‘ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں پوٹن نے کہا کہ صدر اسد صرف ان لوگوں سے لڑ رہے ہیں جنہوں نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور اگرچہ انہوں نے شام کی پانچ سالہ جنگ کے دوران ’’بہت غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے‘‘ مگر وہ اتنے بڑے پیمانے پر تشدد کے ذمہ دار نہیں۔
’’یہ تنازع کبھی اتنا بڑا نہ ہوتا اگر اسے شام کے باہر سے ہتھیاروں، پیسے اور جنگجوؤں کے ذریعے ہوا نہ دی جاتی۔ اس کے لیے کون ذمے دار ہے؟ اسد حکومت جو ملک کو جوڑے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے؟ یا باغی جو حکومت کے خلاف جنگ کر کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
روس شام کی حمایت کرتا ہے اور ستمبر میں اس نے ملک میں فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں جن کے بارے میں مغربی اقوام کا خیال ہے کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کی بجائے باغیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ پوٹن کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی جہاز شہریوں کو نشانہ نہیں بنا رہے اور روس کے پاس اپنے ناقدین کو غلط ثابت کرنے کے لیے شواہد موجود ہیں۔
ایسے وقت جب اقوام متحدہ اس ماہ جنیوا میں شام کے متحارب فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششں کر رہی ہے، پوتن نے کہا کہ وہ شام کو لیبیا یا عراق بنتا نہیں دیکھ سکتے۔
’’مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر چیز ایسے ہی رہے گی۔ جب ملک میں استحکام پیدا ہو جائے گا تو آئینی اصلاحات ہونی چاہیئیں اور پھر جلد صدارتی انتخابات۔ صرف شامی عوام ہی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کسے مستقبل میں ملک پر حکومت کرنی چاہیئے۔‘‘
اقوام متحدہ نے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا ہے جس میں چھ ماہ کے اندر جنگ بندی اور اس کے بعد ایک سال کے اندر نیا آئین تشکیل دینے اور انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2014 کے اوائل میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن مذاکرات کے دو دور بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے تھے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں کون شریک ہو گا۔
پوٹن نے کہا کہ صدر اسد کی فورسز اور داعش سے لڑنے والے باغی گروپوں کی حمایت کے لیے روس شام میں اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔