|
چین کے شی جن پنگ، بھارت کے نریندر مودی اور دوسرےعالمی رہنما منگل کو ترقی پذیر معیشتوں کے بلاک برکس کے سربراہی اجلاس کے لیے روس کے شہر کازان پہنچ گئے ہیں جو کریملن کو امید ہے کہ عالمی معاملات میں مغربی اثر و رسوخ کو روکنے کےلئے ایک موقع میں تبدیل ہو جائے گا۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کے لیے یہ تین روزہ اجلاس روس کو یوکرین میں اپنے اقدامات کی وجہ سے الگ تھلگ کرنے میں امریکی قیادت کی کوششوں کی ناکامی کو ظاہر کرنے کا بھی ایک طاقتور زریعہ بن گیا ہے ۔
کریملن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے اس سربراہی اجلاس کو روس کی جانب سے منعقد ہونے والا " خارجہ پالیسی کا اب تک کا سب سے بڑا ایونٹ" قرار دیا، جس میں 36 ملک شرکت کر رہے ہیں اور ان میں سے 20 سےزیادہ ملکوں کی نمائندگی ان کے سربراہ کر رہے ہیں ۔
یہ اتحاد جس میں ابتدائی طور پر برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل تھے، تیزی سے بڑھتے ہوئے ایران، مصر، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اپنے ارکان میں شامل کر چکا ہے ۔ترکیہ ، آذربائیجان اور ملائیشیا نے باضابطہ طور پر اس کا رکن بننے کی درخواست دے دی ہے، اور چند دوسروں نےشمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے
پوٹن نے، جو سربراہی اجلاس کے موقع پر تقریباً 20 دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے، مودی اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا سے ملاقات کی اور پروگرام کے مطابق دن کے آخر میں شی جن پنگ سے ملاقات کر رہے ہیں ۔
مبصرین برکس سربراہی اجلاس کو مغرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگیوں کے دوران گلوبل ساؤتھ کی جانب سے حمایت ظاہر کرنے اور اقتصادی اور مالیاتی تعلقات کی توسیع میں مدد سے متعلق کریملن کی کوششوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔
مجوزہ منصوبوں میں ادائیگی کے ایک نئے نظام کی تشکیل شامل ہے جو عالمی بینک کے پیغام رسانی کے نیٹ ورک SWIFT کا ایک متبادل پیش کرے گا اور ماسکو کو مغربی پابندیوں سے بچنے اور شراکت داروں کے ساتھ تجارت کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
سربراہی اجلاس نےشی اور پوٹن کے درمیان قریبی تعلقات کی نشاندہی بھی کی ہے، جنہوں نے 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے سے چند ہفتوں قبل "غیر محدود" شراکت داری کا اعلان کیا تھا۔
وہ پہلے ہی اس سال کم از کم دو بار ملاقات کر چکے ہیں، مئی میں بیجنگ میں اور جولائی میں قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں۔
SEE ALSO: وزیرِ اعظم مودی کا دورۂ روس؛ کیا یہ مغربی ملکوں کو کوئی پیغام ہے؟بھارت کے ساتھ روس کے تعاون میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ بھارت اپنے سب سے بڑے حریف، چین کے ساتھ روس کے قریبی تعلقات کے باوجود سرد جنگ کے دور سے ماسکو کو ایک قابل بھروسہ پارٹنر سمجھتا ہے ۔
مغربی اتحادی چاہتے ہیں کہ بھارت ماسکو کو یوکرین کی جنگ ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے مزید سرگرم ہو، لیکن مودی نے پرامن حل پر زور دیتے ہوئے روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔
مودی نے جنہوں نے آخری بار جولائی میں روس کا دورہ کیا تھا ،کہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے، اور ہم امن اور استحکام کے جلد از جلد قیام کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔"
پوٹن نے روس اور بھارت کے درمیان شراکت داری کو مراعات یافتہ قرار دیتےہوئے اس کا خیرمقدم کیا ۔
SEE ALSO: مودی کے دورے کے بعد روس کیلئے برآمدات بڑھانے کی بھارتی کوششرامافوسا کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران، روسی صدر نے ایک منصفانہ، ملٹی پولر گلوبل آرڈر کے لیے اپنی مشترکہ جدو جہد پر زور دیا اور خاص طور پر برکس کے اراکین کی جانب سے ادائیگی کے ایک نئے آزاد سسٹم کی تشکیل کی کوششوں کا ذکر کیا ۔
جمعرات کو، پوٹن اقوام متحدہ کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں،جو دو سال سے زیادہ عرصے میں روس کا پہلا دورہ کریں گے۔ گوتریس یوکرین میں روس کے اقدامات پر بار ہا تنقید کر چکے ہیں ۔
اس رپورٹ کےلیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔