ملتان کے ایک جوڈیشل میجسٹریٹ کی عدالت نے سماجی میڈیا پر معروف ہونے والی ماڈل قندیل بلوچ کے مقدمہٴ قتل میں بدھ کو مفتی عبدالقوی قابل ضمانت ورانٹ گرفتاری جاری کیے۔ تاہم، بعدازاں، انہوں نے بدھ کو ہی ملتان کی سیشن جج کی عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کر لی۔
عدالت نے یہ ورانٹ اس مقدمہ کے تفتیش کرنے والے پولیس کے ایک عہدیدار نور اکبر کی درخواست پر بدھ کو جاری کیے تھے۔
تاہم، نور اکبر نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزم مفتی عبدالقوی کے قابل ضمانت ورانٹ جاری ہونے کے بعد انہوں نے ملتان کی سیشن جج عدالت سے عبوری ضمانت کے لیے رجوع کیا اور عدالت نے ان کی عبوری ضمانت قبول کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اس مقدمہ کی تفتیش کے لیے پولیس کے سامنے پیش ہوں۔
واضح رہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وڈیوز اور متنازع بیانات سے شہرت پانے والی ماڈل قندیل بلوچ کو گزشتہ سال جولائی میں ملتان میں اس کے ایک بھائی، وسیم نے میبنہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
قندیل بلوچ نے جون 2016ء میں مذہبی راہنما مفتی عبدالقوی سے ایک ملاقات کے دوران بنائی گئی وڈیوز اور تصاویر کو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر جاری کر دیا تھا، جس کی وجہ سے کئی دنوں تک اس معاملےکا میڈیا پر چرچا رہا اور مفتی عبدالقوی کو بھی خفت اٹھانی پڑی۔
پولیس کے مطابق، قندیل بلوچ کے والد نے قندیل بلوچ کے قتل کی 'ایف آئی آر' میں مفتی عبدالقوی کو بھی بطور ملزم نامزد کیا تھا۔ تاہم مفتی عبدالقوی قندیل کے قتل میں کسی طور بھی ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ مفتی عبدالقوی رویت ہلال کمیٹی میں شامل تھے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن بھی تھے۔ تاہم، قندیل بلوچ کے ساتھ ان کی وڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد تحریک انصاف نے ان کی رکنیت ختم کر دی اور رویت ہلال کمیٹی سے بھی انہیں سبکدوش ہونا پڑا۔