قطر کے امیر نے چار عرب ریاستوں کے ساتھ جاری سفارتی تنازع کے تناظر میں کہا ہے کہ کسی بھی طرح کا عسکری تصادم خطے میں صرف افراتفری کا باعث بنے گا۔
شیخ تمیم بن حماد الثانی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر اور اس کی چار مخالف عرب ریاستوں۔۔بحرین، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات۔۔کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی پیش کی تھی تاکہ امریکی اتحادیوں کے مابین اس بحران کو ختم کیا جا سکے۔
امریکی ٹی وی نیٹ ورک 'سی بی سی' کے پروگرام '60 منٹس' میں بات کرتے ہوئے قطر کے امیر کا کہنا تھا کہ تاحال اس بارے میں ان چار مخالف ریاستوں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول "یہ ملاقات بہت جلد ہونی چاہیے تھی۔"
جون میں ان چار عرب ریاستوں نے قطر پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اس سے اپنے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
قطر ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔ تنازع کے کچھ ہی دن بعد ایسے خطرات بھی منڈلانے لگے تھے کہ یہ ریاستیں قطر کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کر سکتی ہیں لیکن صورتحال اس نہج تک نہیں پہنچی تھی۔
ستمبر میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح نے بھی تنازع کے حل کے لیے امریکی صدر کی کوششوں کی حمایت کا عزم ظاہر کیا تھا۔
تاہم شیخ تمیم نے اعتراف کیا کہ اب بھی فوجی کارروائی کا خطرہ موجود ہے۔ " مجھے خدشہ ہے اگر ایسا کچھ ہوتا ہے، اگر فوجی کارروائی ہوتی ہے تو یہ خطہ افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔"
سی بی سی کا یہ پروگرام اتوار کو نشر کیا جائے گا۔
قطر کے امیر کے اس بیان پر اتوار کو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
قرقاش نے ٹوئٹر پر کہا کہ "مغربی ذرائع ابلاغ میں جا کر اس موقع پر سعودی عرب اور متحدہ امارات کو نشانہ بنانا خطرناک ہے۔"
ان کے بقول قطر کو اپنی تنہائی پر واویلا کرنے کی بجائے وہ کرنا چاہیے جو کہ ضروری ہے۔