بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہل کاروں کو قطر میں سزائے موت کا حکم

قطر کی ایک عدالت نے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہل کاروں کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ وہ ایک نجی کمپنی ’ال دہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز‘ میں کام کر رہے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو ٹریننگ اور متعلقہ خدمات فراہم کرتی تھی۔

رپورٹس کے مطابق انھیں کمپنی میں کام کے دوران اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں اگست 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں ایک اعلیٰ افسر کمانڈر (ریٹائرڈ) پرنیندو تیواری بھی ہیں جنہوں نے بھارت کے ایک بڑے جنگی بحری جہاز کو کمانڈ کیا تھا۔ وہ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان اہل کاروں کی ضمانتوں کی درخواستیں متعدد بار مسترد کی جا چکی تھیں۔

نئی دہلی کے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک ذریعے نے رازداری کی شرط پر بتایا کہ ان پر جاسوسی کا الزام تھا۔ قطری اور بھارتی اہل کاروں نے الزامات کی تفصیل کبھی نہیں بتائی۔ مذکورہ شخص نے مزید بتایا کہ قطر کی انتظامیہ نے اس کیس کی رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے ایک بھارتی صحافی اور اس کی اہلیہ کو ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔

ان کے خلاف گزشتہ سال مارچ میں ٹرائل شروع ہوا تھا۔ ساتویں سماعت راوں سال کے تین اکتوبر کو ہوئی تھی۔ قطر میں بھار ت کے سفیر نے یکم اکتوبر کو ان اہل کاروں سے ملاقات کی تھی۔ بھارت ان کو ملک واپس لانے کی کوشش کر رہا تھا۔

جن اہل کاروں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن بیریندر کمار ورما، کیپٹن سوربھ وشسٹ، کمانڈر امت ناگپال، کمانڈر پرنیندو تیواری، کمانڈر سگوناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا اور سیلر راجیش شامل ہیں۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے اس فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تمام ممکنہ قانونی امکانات تلاش کر رہی ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مذکورہ اہل کاروں کے اہلِ خانہ اور قانونی ماہرین کے رابطے میں ہیں۔ ہم اس فیصلے کو قطر کی انتظامیہ کے سامنے اٹھائیں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم کو یہ ابتدائی اطلاع ملی ہے کہ قطر کی ایک عدالت نے ال دہرا کمپنی کے آٹھ بھارتی ملازمین کے خلاف آج فیصلہ سنایا ہے۔ ہمیں سزائے موت کے حکم پر شدید صدمہ پہنچا ہے۔ ہم تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

وزارتِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے لیے یہ معاملہ بہت اہم ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم قونصل رسائی اور قانونی مدد جاری رکھیں گے۔ وزارت نے کیس کی رازداری کے پیش نظر مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔

خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق اہل کاروں میں سے ایک اہل کار کی بہن میتو بھارگوا نے اپنے بھائی کو واپس لانے کے لیے حکومت سے مدد مانگی تھی۔ انھوں نے آٹھ جون کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گرفتار شدگان کو رواں سال جولائی میں اس وقت کچھ ریلیف ملا تھا جب انھیں جیل میں قید تنہائی سے ایک ڈبل بیڈ کے وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کو فون کرنے اور اہلِ خانہ کے دورے کی بھی اجازت مل گئی تھی۔ اس سے ایسا لگتا تھا کہ اس معاملے میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار رنجیت سنگھ نے ’اے بی پی نیوز‘ کے لیے اگست میں لکھے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ بھارت کو قطر کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات اور دفاعی تبادلے کے پیش نظر امید تھی کہ وہ قطر کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ ان اہل کاروں پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارت قطر کے عدالتی عمل میں مداخلت یا قطری انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے گرفتار اہل کاروں کے اہل خانہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت کے لیے یہ ایک ترجیحی معاملہ ہے اور دوحہ میں واقع بھارتی سفارت خانہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔

دوحہ میں بھارت کے سابق سفیر دیپک متل نے گرفتار شدگان سے تین بار ملاقات کی تھی اوراس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ جلد ہی وطن لوٹ آئیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی سفارت کار اس معاملے میں بیک چینل ڈپلومیسی استعمال کر رہے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قطری انتظامیہ نے مذکورہ کمپنی کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے اسٹاف میں 75 بھارتی شہری بھی شامل تھے۔

رنجیت کمار کے مطابق بھارت اقتصادی مجبوریوں کی وجہ سے قطر پر زیادہ سفارتی دباؤ ڈالنے سے بچتا رہا ہے۔ چوں کہ قطر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں جو وہاں کی مجموعی آبادی کا 25 فی صد ہیں اس لیے بھارت کو ان کے مفادات کی زیادہ فکر تھی۔

یہی وجہ ہے کہ بھارتی اہل کار خاموشی سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور بحریہ کے اہل کاروں کو جلد رہائی کی امید تھی۔