پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر ریفرنسز کو سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کر دیا ہے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف اثاثے چھپانے سے متعلق جو ریفرنس دائر کیا گیا ہے وہ لڑکی" کے بھائی‘‘ والی اسٹوری کے مصنف صحافی کی شکایت پر بنایا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس کا شکایت کنندہ ’’صرف ایک پروکسی ہے، جبکہ یہ ریفرنس لانے والے نادیدہ افراد سامنے نہیں آ رہے‘‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 70 صفحات پر مشتمل یہ پٹیشن سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس خود جا کر جمع کروائی۔
پٹیشن میں صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، فیڈریشن آف پاکستان بوساطت سیکرٹری قانون و انصاف، وزیر قانون، اٹارنی جنرل انور منصور خان، سپریم جوڈیشل کونسل، رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف، شہزاد اکبر چیئرمین اثاثہ جات ریکوری یونٹ، وزیر اعظم ہاؤس کے قانونی ماہر ضیا المصطفیٰ نسیم، شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر اور وحید شہزاد بٹ، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے 55 سوالات
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کے آغاز میں 55 سوالات تحریر کیے ہیں جن کا عنوان ’قانون کا سوال‘ ہے۔ اس سوالنامے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی طرف سے شکایت کنندہ کی سپریم کورٹ کے جج کے خلاف درخواست وصول کرنے، ایف بی آر کو ریکارڈ فراہم کرنے اور ایف آئی اے کی تحقیقات سے متعلق سوال اٹھایا ہے کہ ان تمام افراد نے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت یہ سب اقدام کیے ہیں؟ صدر عارف علوی نے یہ ریفرنس بھجوایا جبکہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف آنے والے ریفرنس کے فیصلے میں کہا جا چکا ہے کہ صدر اس میں اپنی رائے بھی شامل کریں گے۔ آیا اس ریفرنس میں بھی صدر نے اپنی رائے شامل کی یا صرف وزیر اعظم کے بھجوائے گئے ریفرنس کو چیف جسٹس کو بھجوا دیا؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم نے اس میں اپنی رائے شامل کی جبکہ وہ اپنی اہلیہ کے اثاثے بھی اپنے اثاثوں کے ریکارڈ میں نہیں دکھا سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہے، ان کے خلاف دائر ریفرنس میں کیا وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی؟
جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ان کے خلاف ان کے سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھانے سے پہلے کے معاملات پر ریفرنس لایا جاسکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’آرٹیکل 175(3) کے مطابق کیا ایک سیکرٹری سپریم کورٹ کے جج کو شوکاز نوٹس جاری کرسکتا ہے؟ اس طرح کا شوکاز نوٹس عدلیہ کو مقننہ سے الگ کرنے کے فیصلہ پر حملہ نہیں ہے؟ْ کیا ایک نامعلوم یا بے ایمان شکایت کنندہ کے کہنے پر جج کے ریفرنس بنایا جاسکتا ہے؟ جج اور اس کے اہل خانہ کے خلاف خفیہ معلومات حاصل کرکے ریفرنس بنانا کیا عدلیہ کی آزادی ہے؟ کیا کسی شکایت کنندہ کو جانے بغیر اور اس بے ایمان شکایت کنندہ کو جانچے بغیر ایک جج کے ریفرنس بھجوایا جاسکتا ہے؟‘‘
مرزا شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ ندیم آرٹیکل 240 اور242 کے تحت حکومت پاکستان کے ملازم نہیں تو کیا وہ ریاست کے معاملات اور ایک جج کے حوالے سے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں؟ کیا ایسا مواد جو شوکاز میں نہ بتایا گیا ہو اور ریفرنس میں شامل ہو اس پر کارروائی کرنا فئیر ٹرائل کے اصول کے مطابق ہے؟
فائز عیسیٰ نے ریفرنس کی جلد بازی میں سماعت پر بھی سوال اٹھایا کہ جب وہ منظور شدہ چھٹی پر تھے اس وقت ان کے خلاف چھ سے پندرہ سال پرانے معاملات پر جو کہ کرپشن سے متعلق بھی نہ تھے ریفرنس بھجوانے کی ضرورت تھی؟ انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دائر ہونے والے والی نظرثانی درخواست کے حوالے سے سوال کیا کہ اس نظرثانی درخواست میں میرے خلاف مخصوص عزائم رکھنے کا کہا گیا تھا، حکومت نے میرے خلاف اس ریفرنس کے خلاف سے پروپیگنڈہ کیا۔ کیا صدر کا میرے حوالے سے بلیک میل کرنے کا کہنا اور میڈیا ٹرائل کرنا منصفانہ عمل ہے؟ فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ والا مواد جاری کردیا گیا جبکہ انکا جواب کسی میڈیا پر نہیں آنے دیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 4 اور 25 کی خلاف ورزی کی گئی۔
SEE ALSO: کردار کشی ہو رہی ہے، دباؤ میں نہیں آؤں گا: جسٹس فائز عیسیٰفائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کا کردار ادا کر سکتی ہے اور ان کے خلاف انکم ٹیکس کے حوالے سے ذمہ داری کا تعین کرسکتی ہے؟کیا ان کی پراپرٹیز کا تعین کرسکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ اور بچوں کی حدود کا تعین کرسکتی ہے؟ کیا زیرکفالت نہ ہونے والے بچوں کے حوالے سے کسی ثبوت کے بغیر باپ پر ذمہ داری عائد کی جا سکتی ہے؟ ٹیکس بچانے کے لیے کوئی ٹرسٹ نہیں بنایا گیا۔ کسی ٹیکس چھپانے والے ملک میں جائیداد یا اکاؤنٹ نہیں کیا ان کے خلاف کوئی کارروئی کی جا سکتی ہے؟
انہوں نے سوال کیا کہ کیا جج کا اپنے خلاف دائر ریفرنس کی کاپی صدر سے مانگنا مس کنڈکٹ ہے؟ کیا صدر کو اپنے خلاف دائر ریفرنس کو پبلک کے سامنے ظاہر کرنے کی شکایت لگانا مس کنڈکٹ ہے؟جج پر کسی ثبوت کے بغیر الزام عائد کرنا کہ اس نے میڈیا کو خط کی کاپی دی کیا درست اقدام ہے؟
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف درخواست کس نے دی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی دائر کردہ درخواست میں اپنے خلاف دائر ہونے والے شکایت کے حوالے سے بھی بتایا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف درخواست اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو ایک صحافی عبدالوحید ڈوگر نے دی جو اس کے مطابق ایک تحقیقاتی صحافی اور قانون پسند شہری ہے۔ لیکن وہ کہاں کام کرتا ہے اس کا کیا پتہ ہے۔ اس کا ای میل، گھر کا پتہ، ٹیلی فون نمبر کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ عبدالوحید ڈوگر نے ان کے خلاف ایک بھی ایسا ثبوت فراہم نہیں کیا جس کے مطابق انہوں نے کوئی جائیداد بنائی ہو، اس درخواست پر مرزا شہزاد اکبر 16 اپریل 2019 کو وزیر قانون فروغ نسیم سے ملے اور، اس درخواست پر عبدالوحید ڈوگر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی استدعا کی۔ بعد ازاں شہزاد اکبر کے مطابق عبدالوحید ڈوگر نے ان کی لندن پراپرٹیز کی تفصیلات انہیں فراہم کیں، ان پراپرٹیز کی تفصیلات کے حصول کے لیے تین سے نو پاؤنڈ تک کی آن لائن فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ لیکن بطور ثبوت ایسی کوئی رسید موجود نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسٹر ڈوگر نے ایسی کوئی سرچ یا آن لائن معلومات حاصل نہیں کیں بلکہ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ایک پروکسی ہے جو خود سامنے نہیں آنا چاہتے۔
عبدالوحید ڈوگر کون ہے؟
جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق تحقیقاتی صحافی عبدالوحید ڈوگر کا صرف شناختی کارڈ نمبر دیا گیا تھا جبکہ مزید تفصیلات نہ دی گئی تھیں۔ لٰہذا، جب اس شناختی کارڈ نمبر کو ایف بی آر کے ریکارڈ سے چیک کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی ریکارڈ ایف بی آر کے پاس موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب کہ عبدالوحید ڈوگر نے ایک روپیہ بھی انکم ٹیکس کی صورت میں ادا نہیں کیا۔ عبدالوحید ڈوگر شاید دنیا میں واحد تحقیقاتی صحافی ہونگے جو اپنے نام کو خفیہ رکھنے کے خواہش مند ہونگے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق، عبدالوحید ڈوگر ماضی میں بھی جھوٹی کہانیاں گھڑنے میں ماہر رہے ہیں اور دی نیوز کے صحافی احمد نورانی کو جب تشدد کا نشانہ بنا کر میڈیا کو سخت پیغام دیا گیا اس وقت عبدالوحید ڈوگر نے ایک خبر شائع کی جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ احمد نورانی کا ایک لڑکی کے ساتھ افئیر چل رہا تھا اور لڑکی کے بھائیوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے بعد ’’لڑکی کی بھائی ‘‘کے نام سے ایک ٹرینڈ بھی چلتا رہا، بعد ازاں 8 دسمبر 2017 کو عبدالوحید ڈوگر نے اس خبر کی تردید کی اور معافی مانگی۔
اس تمام عمل کے دوران حکومتی ادارے عبدالوحید ڈوگر کی مکمل حمایت کرتے رہے اور ان کے خلاف دائر شکایت پر بھی اس کا کردار اور ماضی جانے بغیر صرف کسی اور کے لیے آنے والے شخص کی حفاظت کرتے رہے۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسٹر ڈوگر صرف ایک فرنٹ مین اور سامنے نظر آنے والا سازشی شخص ہے جس کے پیچھے اصل لوگ کوئی اور ہیں اور یہ شخص اپنے اصل مالکان کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
فائز عیسیٰ کی اپنے اہل خانہ سے متعلق تفصیلات
فائز عیسیٰ نے اپنی پٹیشن میں اپنے اہل خانہ سے متعلق تمام تفصیلات الگ الگ درج کی ہیں جس کے مطابق ان کی اہلیہ کراچی میں ایک سکول میں استاد ہیں اور کئی دہائیوں سے اس تدریسی عمل میں مصروف ہیں۔ ان کی چند سو ایکڑ ذاتی زرخیز زمین بھی ہے جو سندھ اور بلوچستان میں موجود ہے۔ اسی طرح قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی صاحبزادی اور بیٹے سے متعلق بھی تفصیلات بتائی ہیں جو ان کے مطابق ان کے زیر کفالت نہیں بلکہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل پر تنقید
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کے حوالے سے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل ان سے ذاتی طور پر نفرت کرتے ہیں اور ان کے خلاف ریفرنس میں لکھی جانے والی زبان اس بات کی شاہد ہے۔ انہوں نے ریفرنس کے مختلف جملے بھی تحریر کیے اور کہا کہ میں اس بات پر شاک میں ہوں کہ وہ مجھ سے اس قدر نفرت انگیز رویہ کیوں رکھتے ہیں۔ فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا کردار کونسل کے معاون کا ہوتا ہے۔ لیکن اس معاملہ میں اٹارنی جنرل پراسیکیوٹر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاید جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ کے طور پر کام کرنے والے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو اس وقت آئین اور قانون کی پاسداری اور اس ضمن میں میری جدوجہد کا رنج ہو۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں پی ٹی آئی کی نظرثانی اپیل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اصل اپیل سے پہلے ایک اور اپیل پھیلائی گئی جس میں ان کے خلاف بہت بری زبان استعمال کی گی گئی تھی۔ لیکن اس کے پھیلانے سے میرے خلاف پروپگینڈہ کرکے مخصوص مقاصد حاصل کرلیے گئے۔
صدر عارف علوی کو خط لکھنے کا ریفرنس
جسٹس فائز عیسیٰ کے صدر عارف علوی کو لکھے جانے والے دو خطوط کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کی بنا پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ لیکن اپنی اس درخواست میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے صدر عارف علوی کو تین خطوط بھجوائے ہیں جو کہ 28 مئی، 3 جون اور آخری خط 12 جون کو لکھا گیا ہے۔ ان تینوں خطوط میں انہوں نے حکومت کی طرف سے اپنی خلاف چلائی جانے والی پروپیگنڈہ مہم اور میڈیا ٹرائل کا لکھا ہے۔
پٹیشن میں جسٹس فائز کا کہنا ہے کہ میرے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا کہ میں نے صدر کو خط لکھ کر اس کی کاپیاں میڈیا میں تقسیم کیں۔ لیکن اس حوالے سے کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر کو خط لکھے جانے سے متعلق یہ بھی بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس سے اپنے خلاف دائر ریفرنس کی کاپی مانگی۔ لیکن انہیں یہ کاپی فراہم نہ کی گئی جس پر میں نے ان سے کہا کہ میں صدر پاکستان کو خط لکھنا چاہتا ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انہیں خط لکھو یا نہ لکھو لیکن آپ ایسے معاملات کو مزید الجھا رہے ہیں، جس پر میں نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میں خط نہ لکھوں جس پر انہوں نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔ جب میں نے سوال کیا کہ کیا میں رجسٹرار کے توسط سے لکھوں تو چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں لکھا۔ یہ آپ پر ہے کہ یہ خط کیسے بھجوایا جائے، یہ ملاقات بہت اچھے ماحول میں ہوئی اور چیف جسٹس نے مجھے ایک لطیفہ بھی سنایا۔
انہوں نے اس ریفرنس کی تیزی پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 12 جون کو وحید شہزاد بٹ کی طرف سے درخواست دائر ہونے پر 15 جون کو رجسٹرار نے اس سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین کو بھجوایا اور 18 جون کو فیکٹ شیٹ تیار کی گئی، جس کے بعد اس روز شیخ عظمت سعید کی رائے لی گئی اور اس کے بعد دو جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے شکوہ کیا کہ جب ان کے خلاف حکومتی ٹیم کی طرف سے پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا اس وقت ان کا ساتھ عدلیہ یا قانون و انصاف سے متعلق کسی حکومتی ادارے نے نہیں دیا۔ میرے خلاف دائر پہلے ریفرنس کی تفصیلات مجھے فراہم نہیں کی گئیں۔ لیکن، صدر کو خط لکھنے والے شہزاد بٹ کے پاس اس حوالے سے تمام تفصیلات موجود تھیں جس کا مطلب ہے کہ حکومتی ٹیم کے لوگ ان کے پیچھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنس کی کاپی فراہم کیے جانے سے متعلق میرے خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ نہ تو صدر مملکت اور نہ ہی عدلیہ کے رجسٹرار یا چیف جسٹس کی طرف سے کوئی جواب دیا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے حکومتی سنسرشپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے نجی ٹی وی چینلز کے لیے ایک حکم جاری کیا جس میں ان کے حق میں بات کرنے والے پاکستان بار کونسل کے وکلا کو دکھانے پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔
انہوں نے صدر عارف علوی کے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ صدر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آنے پر میرے پاس تین آپشن تھے کہ یا تو اس ریفرنس کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کروں، دوسرا میڈیا ٹرائل کروں یا پھر قانون کے مطابق چلوں۔ فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ صدر بلیک میلنگ اور میڈیا ٹرائل کو آپشن سمجھتے ہیں۔
شہزاد اکبر سرکاری ملازم نہیں: جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس فائز عیسیٰ نے مرزا شہزاد اکبر اور وزیر اعظم ہاؤس کے قانونی مشیر ضیا المصطفیٰ نسیم سے متعلق کہا ہے کہ ان دونوں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور سرکاری ملازم نہ ہونے کے باوجود کس طرح بیوروکریٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات کس کے ملازم ہیں اور ان کی ملازمت کی شرائط کونسی ہیں۔ ان دونوں افراد کا ماضی میں کس کس سے تعلق رہا۔ آیا ان کا تعلق حکومت سے ہے یا پھر یہ پی ٹی آئی کی ہمدردوں میں سے ہیں؟ ان کی ٹیکس سے متعلق معلومات بھی سامنے لائی جائیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی پٹیشن میں آئین کے مختلف حوالہ جات بھی دیے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف دائر ریفرنس بے بنیاد اور نادیدہ ہاتھ کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا، ان ریفرنسز کو مسترد کر دیا جائے۔
فائز عیسیٰ نے یہ ریفرنس خود سپریم کورٹ آ کر رجسٹرار کے دفتر میں جمع کروایا جس کے بعد اسے نمبر جاری کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ قابل سماعت ہے یا پھر اسے عدالت میں کب سنا جائے گا اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان ہی فیصلہ کریں گے۔