پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں سب سے بڑی سرکاری درس گاہ قائدِاعظم یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو پولیس نے پیر کی صبح کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق حراست میں لیے گئے لگ بھگ 60 طلبا کو نقضِ امن کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے تاہم اُن کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے جامعہ میں تدریسی سرگرمیوں کی بحالی اور امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس سے مدد مانگی گئی تھی۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اُنھیں پولیس نے تحویل میں لے لیا اور لاٹھی چارج بھی کیا جس میں کچھ طالب علم زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ احتجاج کے باعث یونیورسٹی گزشتہ دو ہفتوں سے بند تھی اور گزشتہ جمعرات کو وزیرِ تعلیم بلیغ الرحمٰن کی درخواست پر وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ یونیورسٹی کے امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف نہ صرف کارروائی کرے بلکہ نصابی سرگرمیوں کی بحالی میں قائدِاعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ سے تعاون کیا جائے۔
اس سے قبل رواں سال مئی میں بھی قائدِاعظم یونیورسٹی میں سندھی اور بلوچ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم اور فائرنگ کی وجہ سے 30 سے زائد طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔
واقعے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اس جھگڑے میں مبینہ طور ملوث بعض طلبہ کو جامعہ سے نکال دیا تھا، جس کے خلاف طلبہ احتجاج کرتے رہے ہیں اور رواں ماہ اس میں شدت آگئی تھی۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے دو بڑے مطالبات میں یونیورسٹی سے خارج کیے گئے طلبا کی بحالی اور یونیورسٹی فیس میں اضافے کو واپس لینا شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے انتظامیہ کی طرف سے فیسوں میں مجوزہ اضافہ تو واپس لے لیا گیا تھا لیکن طلبہ کی بحالی کے مطالبے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
قائدِاعظم یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک استاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ نکالے گئے طلبا کی بحالی اساتذہ کو بھی قبول نہیں ہے۔
انتظامیہ کے مطابق پیر کو یونیورسٹی میں تعلمیی سرگرمیاں جزوی طور پر بحال ہوئیں جب کہ عینی شاہدین کے مطابق بے یقینی کے باعث حاضری کم رہی۔
عینی شاہدین کے مطابق تحویل میں لیے گئے طلبا کے بعض ساتھیوں نے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں احتجاج کیا۔