جنگ کے بعد غزہ کا مستقبل ایک مشکل اور حل طلب سوال

ایک فلسطینی یوم القدس کے موقع پر فلسطین کا پرچم لہراتے ہوئے نعرے لگا رہا ہے۔ 9 ستمر 2022

اسرائیلی افواج کے کمانڈروں کے اس دعوے کے بعد کہ غزہ کے شمالی حصے میں حماس کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے اور اس کے فوجی شہر کے مرکز میں داخل ہو گئے ہیں، ایک بنیادی سوال اٹھ رہا ہے کہ اس جنگ کے بعد تباہ شدہ فلسطینی سرزمین کا کیا ہو گا اور کیا حماس کے عسکریت پسند ختم ہو گئے ہیں؟

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس ہفتے اے بی سی نیوز میں کہا تھا کہ اسرائیل غیر معینہ مدت کے لیے غزہ کی سیکیورٹی ذمہ داری کو برقرار رکھے گا۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب ہمارے پاس سیکیورٹی کی ذمہ داری نہیں ہوتی تو پھر کیا ہوتا ہے۔

نیتن یاہو کی اس سوچ کے برعکس امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو کہا تھا کہ واشنگٹن غزہ پر دوبارہ قبضے کی حمایت نہیں کرے گا۔

غزہ پر کس کا کتنا کنڑول رہا ہے؟

اسرائیل نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے اپنی فوجیں نکال لیں تھیں جس کے بعد 2007 میں یہ علاقہ حماس کے کنٹرول میں چلا گیاتھا۔ لیکن 23 لاکھ فلسطینیوں کی آبادی کے اس حصے کے زمینی، سمندری اور فضائی راستوں کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے اور حماس کے پاس محدود اندورنی اختیار تھا۔

SEE ALSO: فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے : بلنکن

اقوام متحدہ غزہ کی پٹی کو مقبوضہ علاقہ تصور کرتا ہے۔

حالیہ لڑائی سب سے زیادہ تباہ کن ہے

اسرائیل حماس جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے جنوبی اسرائیلی علاقے میں ایک بڑی یلغار سے ہوا، جس میں 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 240 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی ابھی تک جاری ہے جس میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 10 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

اسرائیل کی شدید بمباری سے 23 لاکھ آبادی کے گنجان آباد فلسطینی شہر غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور اسرائیلی فوج کے حکم پر لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھر چھوڑ کر جنوبی کی جانب منتقل ہونا پڑا ہے۔

SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ سے عرب رہنماؤں کی تشویش میں اضافہ، سیکیورٹی خدشات بڑھ گئے

اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک اور انسانی حقوق کے کئی اداروں کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں دونوں فریقوں نے جنگی جرائم کیے ہیں۔

جی سیون کا مطالبہ

ایک ایسے وقت میں جب کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے مرکزی حصے میں داخل ہو کر حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی کارروائیاں کر رہی ہے، جاپان کے شہر ٹوکیو میں دنیا کی سات طاقت ور معیشتوں کے گروپ جی سیون کا اجلاس ہوا ہے۔

اس گروپ میں امریکہ، جاپان، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی اور جرمنی شامل ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں جی سیون کے ارکان نے حماس اور دیگر کی طرف سے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے یرغمالوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

SEE ALSO: تمام زندگیوں کی اہمیت یکساں ہے، فرانس میں غزہ امداد کانفرس 

مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

جاپان کے وزیر خارجہ یوکو مامیکاوا نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے لڑائی میں وفقہ دینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ غزہ میں ضرورت مندوں تک خوراک، پانی، طبی سامان، ایندھن اور انسانی ضرورت کی دیگر چیزوں کی ترسیل ہو سکے اور اسرائیل اس کی اجازت دے۔

جی سیون گروپ کے مطالبات غزہ کی موجودہ صورت حال، جاری جنگ اور فلسطینیوں کی مشکلات پر مرکوز ہیں۔ تاہم کئی ماہرین کی نظریں اس خطے کے مستقبل پر لگی ہیں اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ جنگ کے بعد کیا کوئی ایسا بندوبست سامنے آ سکتا ہے جو پائیدار امن کی ضمانت دے سکے۔

کئی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ جنگ کے بعد اسرائیل کے سیکیورٹی کنٹرول قائم کیے جانے سے شورش بڑھے کا امکان موجود ہے۔

جنگ کے بعد کا منصوبہ

لندن میں قائم پالیسی انسٹی ٹیوٹ چیتھم ہاؤس کے ایک تجزیہ کار یوسی میکلبرک کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل، اس کے مغربی اتحادیوں اور دیگر علاقائی طاقتوں کوغزہ کے لیے جنگ کے بعد کا منصوبہ بنانا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حماس کے سیاسی اور فوجی منظر سے غائب ہو جانے سے ایک خلا پیدا ہو گا جو حماس کے دور سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا بہت اہم ہے اور میرے خیال میں اس میں علاقائی عنصر بھی ہونا چاہیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیل فلسطین تنازع: دو ریاستی حل کیا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے اور اس نے اسرائیل کی مدد کے لیے بحیرہ روم میں اپنا طیارہ بردار بحری بیڑا بھی بھیج دیا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ نیتن یاہو کو غزہ کے مستقبل کے حوالے سے بلینک چیک دینا خطرناک ہو سکتا ہے۔

میکلبرگ نے جی سیون کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی امیر معیشتوں کے اس گروپ نے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا، لیکن دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ان کے ہاں بھی اس جنگ کے خلاف برہمی بڑھ رہی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے جمعرات کو سعودی عرب کے اپنے دورے میں کہا ہے کہ جنگ بندی کا مطالبہ سمجھ میں آتا ہے لیکن ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کی کارروائی اپنے استحکام اور اپنی سیکیورٹی کے لیے ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج اس وقت غزہ میں ہے۔ لیکن غزہ میں وہ سیکیورٹی کی جو بھی ذمہ داری اٹھاتی ہے ، وہ عارضی ہونی چاہیے، تاوقتتکہ ہم ایک فلسطینی قیادت کی جانب بڑھ سکیں۔ ایک ایسی قیادت جو امن اور دو ریاستی حل کے عہد سے وابستہ ہو۔

(ہنری ریجویل، وی او اے نیوز)