امریکہ میں سامنے آنے والے ایبولا کے پہلے مریض کا علاج کرنے والی ایک نرس کے وائرس کا شکار ہونے نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
امریکہ کی جنوبی ریاست ٹیکساس کے محکمۂ صحت نے اتوار کو نرس کے وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایبولا کے ایک مریض سے دوسرے شخص میں وائرس منتقل ہونے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
حکام کے مطابق نرس ٹیکساس کے شہر ڈیلس کے اسپتال میں زیرِ علاج امریکہ میں ایبولا کے پہلے مریض کی نگہداشت کرنے والے عملے میں شامل تھیں۔
یہ مریض ایبولا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تین مغربی افریقی ملکوں میں سے ایک، لائبیریا سے امریکہ پہنچا تھا جہاں چند روز بعد اس میں مرض کی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔
تھامس ایرک ڈنکن نامی مریض 28 ستمبر سے 8 اکتوبر تک انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد اسپتال ہی میں انتقال کرگیا تھا۔
ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ نرس نے وائرس سے متاثرہ مریض کے علاج کے دوران تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کیا تھا اور وہ مریض کے پاس ہر بار مکمل حفاظتی لباس میں ملبوس ہو کر ہی گئی تھیں۔
امریکی محکمۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹام فریڈن نے پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود تاحال یہ پتا نہیں لگایا جاسکے کہ مریض سے نرس کو وائرس کیسے منتقل ہوا؟
ڈاکٹر فریڈن کے بقول نرس کے انفیکشن کا شکار ہونے کا قوی امکان اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب مریض کی نگہداشت کے دوران مخصوص ضابطوں کی پاسداری میں کوئی کوتاہی برتی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نرس کے وائرس سے متاثر ہونے کے واقعے کے بعد محکمۂ صحت کے ماہرین ایبولا کے مریضوں کے علاج سے متعلق مرتب کیے جانے والے قواعد و ضوابط پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں تاکہ وائرس کا علاج کرنےو الے طبی عملے کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔
ڈاکٹر فریڈن نے بتایا کہ قرنطینہ میں موجود ایبولا کے مریض کے پاس سے باہر آنے والے طبی عملے کے ارکان پر حفاظتی لباس اتارنے سے قبل جراثیم کش اسپرے کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ لباس پر موجود وائرس ختم کیا جاسکے۔
ڈاکٹر فرائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے محکمے کے ماہرین نے نرس سے تفصیلی بات چیت کی ہے تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ وہ وائرس سے کس طرح متاثر ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کاامکان موجود ہے کہ مریض کے جسم کی کوئی رطوبت نرس کے حفاظتی لباس پر لگی رہ گئی ہو اور لباس اتارنے کے دوران اس کے جسم کے کسی حصے سے مس ہوگئی ہو۔
ڈاکٹر فرائیڈن کے مطابق دورانِ علاج ایبولا کے مریض کے گردوں کا ڈائیلیسس بھی کیا جاتا رہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس دوران نکالی جانے والی رطوبت نرس میں وائرس منتقل ہونے کا سبب بنی ہو۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ نرس کے وائرس سے متاثر ہونے کا واقعہ پریشان کن ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اریک ڈنکن کا علاج کرنے والے عملے کے مزید افراد میں وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوجائے۔
حکام کے مطابق اسپتال میں داخل ایبولا کے مریض کی نگہداشت پر مامور عملے کے افراد کی فہرست مرتب کی جارہی ہے اور طبی عملہ روزانہ دن میں دو بار ان افراد کا درجۂ حرارت جانچے کے لیے ان کے گھروں پر جائے گا تاکہ ان میں ایبولا کی پہلی علامت – بخار – کا فوری طور پر علم ہوسکے۔
ریاستی حکام نے اس عمارت میں بھی جراثیم کش اسپرے کیا ہے جہاں ایبولا سے متاثر ہونے والی نرس کی رہائش تھی جب کہ نرس کے پڑوسیوں کو بھی محتاط رہنے اور طبیعت کی خرابی کی صورت میں فوری طور پر اسپتال رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے بھی محکمۂ صحت اور وفاقی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایبولا کے مریضوں کے علاج پر مامور طبی عملے کی حفاظت اور وائرس سے بچاؤ کو یقینی بنانے کےلیے اقدامات کریں۔