کوئٹہ میں جمعرات کو دیر گئے بم کا دھماکہ ہونے سے چار افراد ہلاک اور 15 دوسرے لوگ زخمی ہو گئے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ بم کوئٹہ شہر کے وسطی علاقے میں واقع ایک کالج کے باہر کھڑی ہوئی ایک گاڑی میں نصب کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق میڈیا کے لیے جاری کیے گئے ایک بیان میں صوبائی محکمہ صحت نے ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔
فوری طور پر کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
پاکستان کے صوبے بلوچستان کو عموماً شورش پسندوں کی جانب سے حملوں کا سامنا رہتا ہے جن کا ہدف سیکیورٹی فورسز اور عام شہری بنتے ہیں۔
دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے علیحدگی پسند بلوچ گروپس یا پاکستان تحریک طالبان، جسے ٹی ٹی پی بھی کہا جاتا ہے، قبول کرتے رہے ہیں۔ جن کے متعلق سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ریاست مخالف ان حملوں کی منصوبہ بندی پڑوسی ملک افغانستان میں بیٹھ کر کی جاتی ہے۔
ہزاروں پاکستانی، جن میں عام شہری اور سیکیورٹی فورسز کے اہل کار بھی شامل ہیں گزشتہ کئی برسوں کے دوران ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے جانے والے خود کش بموں اور دیگر دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: بلوچستان میں غار سے دو ماہ پرانی چار مسخ شدہ لاشیں برآمد، انسانی حقوق کی تنظیموں کا تحقیقات کا مطالبہپاکستانی حکام حالیہ عرصے میں اس کالعدم تشدد پسند گروپ کے ساتھ امن کی بات چیت کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں 30 دن کے لیے حملے بند کیے گئے تھے۔
تاہم، بعد میں پاکستانی طالبان نے دسمبر کے شروع میں یہ کہتے ہوئے جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ پاکستانی حکام نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کے بعد سے اس تشدد پسند گروپ نے پاکستانی فوج، پولیس اور دیگر لوگوں کو افغان سرحد سے منسلک سابقہ قبائلی علاقوں میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
بہت سے پاکستانی شہری طالبان کے ساتھ امن بات چیت کے خلاف ہیں، جن میں بطور خاص وہ والدین شامل ہیں جن کے بچے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔