پاکستان سپر لیگ کے اہم میچ میں سکندر رضا اور راشد خان کے درمیان آٹھویں وکٹ کی شراکت میں بننے والے 69 رنز کی بدولت لاہور قلندرز اہم میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 17 رنز سے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔
اس میچ میں کامیابی نے جہاں لاہور قلندرز کی پوائنٹس ٹیبل پر گرفت مضبوط کردی ہے، وہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ سرفراز احمد کی قیادت میں سابق چیمپئن ٹیم نے اب تک چھ میچ کھیلے ہیں جب کہ اسے پانچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس کے برعکس پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ پر موجود دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کے چھ میچوں کے بعد 10 پوائنٹس ہیں اور اس کی پلے آف میں رسائی تقریباً یقینی ہے۔
اس وقت اگر پوائنٹس ٹیبل پر نظر ڈالی جائے تو چھ چھ میچوں کے بعد لاہور قلندرز کے دس اور ملتان سلطانز کے آٹھ پوائنٹس ہیں جب کہ پانچ میچ کھیل کر اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم ان سے صرف دو پوائنٹس کی دوری پر ہے۔
ویسے تو پشاور زلمی کے بھی چھ پوائنٹس ہیں لیکن اس کے میچز کی تعداد اسلام آباد سے ایک زیادہ ہے جس کی وجہ سے پوائنٹس ٹیبل پر ان کا چوتھا نمبرہے۔کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پاس اس وقت غلطی کی گنجائش کم ہے۔ کراچی نے سات میچوں میں سے صرف دو جیتے ہیں جب کہ کوئٹہ کو چھ میں سے صرف ایک میں کامیابی ملی۔
کراچی چار پوائنٹس کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں اور کوئٹہ چھٹی پوزیشن پر ہے۔ اگر ان دونوں ٹیموں نے جلد ہی بہتر کارکردگی دکھا کر میچ نہ جیتے تو پلے آف کی دوڑ سے باہر بھی ہوسکتی ہیں۔
سکندر رضا کی شاندار بلے بازی نے لاہور کو مشکل سے نکال کر کامیابی دلائی!
جمعرات کولاہور میں کھیلے گئے میچ میں ایک موقع پر سب کچھ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مرضی کے مطابق ہورہا تھا۔ کپتان سرفراز احمد کا ٹاس جیتنا، ٹیم میں آنے والے نئے کھلاڑیوں کی اچھی بالنگ کرنا اور دسویں اوور تک دفاعی چیمپئن ٹیم کے سات بلے بازوں کو صرف 50 رنز پر واپس پویلین بھیجنا، سب کچھ ایک اچھے مقابلے کی نشاندہی کررہا تھا۔
ایسے میں ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیےآنے والے سکندر رضا نے نہ صرف اپنی جارح مزاجی سے ٹیم کو مشکلات سے نکالا بلکہ راشد خان کے ساتھ 69 رنز کی شراکت قائم کرکے ٹیم کا اسکور 148 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سکندر رضا نے صرف 34 گیندوں پر آٹھ چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے 71 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، جب کہ راشد خان 20 گیندوں پر 21 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔
محمد نواز اور نوین الحق کی دو دو اور اوڈین اسمتھ، نسیم شاہ اور عمید آصف کی ایک ایک وکٹ بھی لاہور قلندرز کے بلے بازوں کی آخری اوورز میں شاندار کارکردگی کو روک نہ سکیں۔
149 رنز کے تعاقب میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا آغاز بہترین تھا۔لیکن پاور پلے میں 53 رنز بنانے کے باوجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم ایونٹ میں مسلسل چوتھی ناکامی سے دو چار ہوئی۔
اوپنر ول اسمیڈ کے 25 گیندوں پر 32 اور کپتان سرفراز احمد کے 28 گیندوں پر 27 ناٹ آؤٹ کے سوا کوئی بھی کھلاڑی لاہور کے بالنگ اٹیک کے سامنے جم کر نہ کھیل سکا۔
کوئٹہ کی پوری ٹیم 20 اوورز میں سات وکٹ کے نقصان پر صرف 131 رنز ہی بناسکی۔ حارث روؤف نے چار اوور میں 22 رنز دے کر تین جب کہ راشد خان نے 14 رنز کے بدلے میں 2 وکٹیں حاصل کیں۔
کیا کپتان سرفراز احمد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مسلسل ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں؟
پاکستان سپر لیگ کے پہلے چار ایڈیشن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کو مضبوط سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف سرفراز احمد کی قیادت میں اس ٹیم نے پہلے اور دوسرے پی ایس ایل کے فائنل کھیلے بلکہ چوتھے پی ایس ایل کی فاتح بھی قرار پائی۔
لیکن اس کے بعد سے لے کر اب تک سرفراز احمد کی ٹیم نے پلے آف مرحلے میں جگہ نہیں بنائی،اور اگر ان کی موجودہ کارکردگی برقرار رہی تو اس بار بھی شاید ان کی ٹیم کا سفر اسی مرحلے میں ختم ہوجائے گا۔
سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ انہوں نے پی ایس ایل 8 سے قبل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مینجمنٹ کو مشورہ دیا تھا کہ سرفراز احمد کی جگہ کسی اور کو کپتان مقرر کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہد آفریدی کی نظر میں سرفراز احمد ہی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ہیں۔
لیکن اگر کوئٹہ کے اسکواڈ پر نظر ڈالی جائے تو ان کے پاس کئی میچ ونرز موجود ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جن کے فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم مشکلات کا شکار ہے۔
اس وقت کوئٹہ کے پاس کئی ایسے کھلاڑی ہیں جو ٹیم کو میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کھلاڑیوں میں سرفہرست نام پاکستان کے لیے حال ہی میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے سعود شکیل کا ہے جنہیں ٹیم مینجمنٹ نے بلاوجہ پورا سیزن بینچ پر بٹھایا ہے۔
دوسری جانب پی ایس ایل 8 سے قبل ہونے والے نمائشی میچ میں ایک اوور میں چھ چھکے مارنے والے افتخار احمد کا فارم میں نہ ہونا بھی ٹیم کے لیے تشویشناک ہے۔ اوپر سے سری لنکن اسپنر ونیندو ہسارانگا کو این او سی نہ ملنا ٹیم کے پلان پر بری طرح اثر انداز ہوا جس کا اظہار کپتان سرفراز احمد پہلے ہی کرچکے ہیں۔
کوئٹہ کے اسکواڈ میں پاکستانی آل راؤنڈر محمد نواز بھی ہیں اور سابق کپتان محمد حفیظ بھی جو حال ہی میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے۔ افتخار احمد کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی موجودگی میں ٹیم کی بالنگ مضبوط ہونی چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوپارہا۔
کپتان سرفراز احمد ایک طرف محمد حفیظ اور افتخار احمد سے کم بالنگ کراتے ہیں جب کہ دوسری جانب محمد نواز پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں جو گزشتہ ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف شکست کے بعد سے اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔
پی ایس ایل 8 کے آغاز میں محمد حسنین اور نسیم شاہ کی تیز بالنگ کے چرچے تو بہت ہوئے لیکن جوں جوں ٹورنامنٹ آگے بڑھا، دونوں کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے تنزلی کا شکار ہونے لگی۔ محمد حسنین تو لاہور قلندرز کے خلاف میچ میں فٹ نہیں تھے جب کہ نسیم شاہ بھی آف کلر نظر آئے۔
پی ایس ایل 8 کی اب تک کی سب سے بڑی اننگز کوئٹہ کے مارٹن گپٹل نے ضرور کھیلی ہے لیکن اس کے باوجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا کوئی بیٹسمین ایونٹ کی ٹاپ ٹین فہرست میں شامل نہیں۔اگر ٹاپ ٹین بالرز کی بات کی جائے تو صرف محمد حسنین 5 میچوں میں 8 کٹوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر موجود ہیں۔
چھ میں سے پانچ میچز میں ناکامی کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پاس اس وقت غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر انہیں تین سیزن کے بعد پلے آف میں پہلی بار جگہ بنانی ہے تو اگلے چاروں میچ میں عمدہ کارکردگی دکھا کر کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔
کوئٹہ کا اگلے میچ 5 مارچ کو اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہوگا جب کہ چھ مارچ کو ان کا سامنا کراچی کنگز سے ہوگا۔ آٹھ مارچ کو پشاور زلمی کی ٹیم کوئٹہ سے نبرد آزما ہوگی جب کہ 11 مارچ کو ملتان سلطانز اور کوئٹہ کے درمیان میچ کھیلا جائے گا۔