پاکستان کے صوبے بلوچستان کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں شیعہ، بالخصوص ہزارہ برادری کو ہدف بنا کر کارروائیاں کر نے والے عناصر کے خلاف سکیورٹی اداروں نے بھرپور کاروائیاں کی ہیں جس کی وجہ سے اب صوبائی دارالحکومت میں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ تقریباً ختم ہوگئی ہے۔
صوبائی وزیرِ داخلہ میر سر فراز بگٹی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے جس کے باعث اب ان کے بقول دیگر لوگوں کی طرح ہزارہ برادری کے افراد بھی کافی راحت محسوس کر رہے ہیں۔
انہوں نے اسے اپنی حکومت کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہا تھا جس کے باعث یہ برادری تنہائی محسوس کر رہی تھی۔
سرفراز بگٹی نے الزام عائد کیا کہ ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ پر سابق صوبائی حکومتوں کی کارکردگی شفاف اور انصاف پر مبنی نہیں تھی لیکن اب ان کے بقول معاملات بہتر ہورہے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کے لوگوں پر بعض شدت پسند کالعدم تنظیموں کی طرف سے متعدد خودکش حملے کیے گئے جب کہ اس برادری کے افراد کو ہدف بنا کر بھی قتل کیا جاتا رہا۔ ان حملوں میں مرد و خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کے باعث حالیہ چند ماہ کے دوران ہزارہ برادری پر خودکش حملے کی کئی کوششیں ناکام بنائی جاچکی ہیں جب کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی بدولت ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کا تناسب بھی کافی کم ہوا ہے۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ضلع کو ئٹہ کے صدر بوستان علی ہزارہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف جو کاروائیاں کر رہے ہیں انہیں جاری رکھتے ہوئے مزید اقدامات بھی کر نے چاہئیں۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی دو بستیاں ہیں جن میں لگ بھگ چار لاکھ افراد آباد ہیں۔
ایک دہائی قبل تک کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں اس برادری کے لوگوں کی سیکڑوں دُکانیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے بعد اب مرکزی بازاروں میں اس برادری کے لوگوں کی تقریباً تمام دُکانیں بند ہوچکی ہیں۔
خودکش حملوں اور ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کے باعث اس برادری کے ہزاروں نوجوان مغربی ممالک کا رُخ کرچکے ہیں جب کہ بعض اندرونِ ملک ہی نسبتاً پرامن شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔