کوئٹہ: سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چار 'دہشت گرد' ہلاک

فائل فوٹو

صوبائی حکومت پولیس کے تربیتی مرکز کے کمانڈنٹ سمیت تین عہدیداروں کو غفلت برتنے کے الزام میں معطل کر چکی ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں حکام نے بتایا ہے کہ پولیس کے تربیتی کیمپ پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث چار مشتبہ شدت پسندوں کو کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں ایک کارروائی کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی سے تھا اور پولیس تربیتی مرکز پر حملے میں ملوث دیگر مشتبہ انتہا پسندوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ لشکر جھنگوی العالمی نے داعش کے ساتھ مل کر پولیس کے تر بیتی مرکز پر حملے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

دریں اثناء صوبائی حکومت نے پو لیس کے تر بیتی مرکز پر رواں ہفتے کے اوائل میں ہونے والے مہلک حملے کے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے بعد 3 افسران کو غفلت کا مر تکب ٹھہرایا ہے اور اُن کو فوری طور معطل کر دیا ہے۔

جن پولیس افسران کو معطل کیا گیا اُن میں تربیتی مر کز کے سر براہ ڈی آئی جی کیپٹن ریٹائرڈ طاہر نوید، نائب سر براہ ڈپٹی کمانڈنٹ ایس ایس پی یا مین خان اور ڈی ایس پی پولیس ہیڈ کوارٹر پی ٹی سی محمد اجمل شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس سانحہ کی تحقیقات ہائیکورٹ کے جج سے کرانے کے لیے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کو ایک خط لکھا ہے۔

جوڈیشل کمیشن واقعے کی چھان بین، ذمہ دارو ں کا تعین ،اور ایسے واقعات کی روک تھام کی سفارشات مر تب کرے گا۔

وزیراعلیٰ نے بریگیڈئیر بلال علی کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی ہے، جس میں پولیس، فرنٹیر کور اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران شامل ہوں گے۔

لیکن ان اقدامات سے حملے کے متاثرہ خاندان مطمئن نہیں، پولیس کے تر بیتی مر کز پر حملے میں جان کی بازی ہار جا نے والے د لاور خان کے والد بہرام خان نے وائس اف امر یکہ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے جلد پورے کیے جائیں۔

’’ہمارا اُس کے ساتھ کیا تعلق ہے کہ کوئی معطل ہوا یہ حکومت کا اپنا کام ہے۔۔۔ نہ کو ئی فاتحہ پر آیا اور نہ کو ئی جنازے پر آیا، نہ کو ئی ہمارے غم میں شریک ہوا۔۔۔ (مرکز میں موجود ہمارے لوگوں کو) سیکورٹی کیوں نہیں دی، مرکز کی نہ کو ئی دیوار ہے نہ کو ئی گارڈ ہے ہمارے بچوں کو بیرک میں بند کر دیا۔‘‘

بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے ڈپٹی پارلیمانی قائد زمرک خان اچکزئی نے بھی صوبائی حکومت کی طرف سے بعض افسران کی معطلی پر عدم اطمینان کا اظہا ر کیا۔

’’صوبائی گورنر، وزیراعلیٰ اس کا جواب دیں ۔۔۔ عوام ڈی ایس پی اور ایس پی کے معطل کرنے سے مطمئن نہیں ہو گی، نہ ہماری اپوزیشن (مطمین ہو گی)۔۔۔ حکومت کو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے اور امن وامان کے لیے اچھے اقدامات کرنے چاہیں، دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔‘‘

تاہم حکومت کا کہنا کہ ہے کہ عوام کو مطمین کرنے اور حملے سے متعلق تمام حقائق جاننے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اُن کو دور کیا جائے گا۔

اُدھر اس سانحے کے پانچویں روز بھی کو ئٹہ اور صو بے بھر کے دیگر اضلاع میں سوگ کا عالم ہے تاہم کاروبار و دیگر سرگرمیاں اب معمول پر آ گئی ہیں۔