فیصل آباد پولیس نے مبینہ طور پر خواتین کو تشدد اور انہیں بے لباس کرنے کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور انہیں بے لباس کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنائی۔ البتہ سوشل میڈیا پر واقعے سے متعلق زیرِ گردش ویڈیوز نے بھی معاملے پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش کچھ ویڈیوز میں خواتین پر تشدد کے ساتھ ساتھ دو خواتین کو خود سے کپڑے اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے متاثرہ خواتین کی مدعیت میں چار معلوم اور 10 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار کچرا چننے کا کام کرتی ہیں اور وہ اپنی دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ کچرا چننے کے لیے مقامی مارکیٹ گئی تھیں۔
ایک متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ جب انہیں پیاس لگی تو وہ ملزمان میں سے ایک کی دکان میں گئیں اور وہاں پانی کی بوتل مانگی۔ لیکن دکان کے مالک نے چلانا شروع کر دیا اور الزام لگایا کہ وہ چوری کے ارادے سے آئی ہیں۔
فیصل آباد پولیس نے رات 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا، مزید کاروائی کرکے پانچوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس واقعہ کی دیگر تمام پہلوؤں سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔آئی جی پنجاب خواتین اور بچوں پر تشدد اور ہراسگی کے واقعات پر زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ https://t.co/TnxbsmUBdZ pic.twitter.com/6T08YYvnuL
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) December 7, 2021
پولیس کو درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شور شرابہ ہونے پر وہاں مزید افراد جمع ہوئے اور انہوں نے درخواست گزار خواتین پر تشدد شروع کر دیا اور انہیں پکڑ کر مارکیٹ میں گھسیٹا۔
البتہ مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ایس پی نعیم عزیز کا کہنا ہے کہ دکان داروں نے پولیس کو بتایا ہے کہ خواتین نے دکان سے کچھ چیزیں چرائی تھیں اور جب انہیں پکڑا گیا تو انہوں نے اپنے کپڑے خود پھاڑنا شروع کر دیے۔
ایس پی کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ خواتین اپنے کپڑے خود پھاڑ رہی ہیں۔ جب کہ ان کے مزید کپڑے تب پھٹے جب انہیں دکان سے باہر گھسیٹا گیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر بحث جاری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ فیصل آباد میں خواتین کو برہنہ کیا گیا۔ مارا گیا البتہ کسی نے مدد نہیں کی۔
ان کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے کیا جرائم کیے تھے۔
Shame is the colour defining many of our minds, hearts again. Women are stripped naked, beaten, no one helps in #Faisalabad. It doesn’t matter what petty crimes they were involved in. Sorry to see some anchors creating a false equivalence even between thievery and public shaming.
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) December 8, 2021
یحییٰ نامی صارف نے ٹوئٹ کیا فیصل آباد کے واقعے نے خواتین سے زیادہ مردوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وکٹم کارڈ کھیلنا بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔
This incident has done more damage to women than men. Playing Victim Card is becoming so common. May Allah guide us all. #Faisalabad
— Yahya. (@KyaaBatHai) December 7, 2021
فاطمہ بتول نامی صارف نے لکھا کہ جب مرد جرم کرتا ہے تو ہجوم اس پر تشدد کرکے مار دیتا ہے لیکن جب یہی عورت کے ساتھ ہو تو پہلے اسے بے لباس کیا جاتا ہے۔
When a man commits a crime, a mob can beat him to death; but when a woman does the same, she must be first stripped then beaten. The #Faisalabad incident shows how a patriarchal society teaches lesson to a women. It%27s time for us to rethink our social behavior. #CCTV
— Fatima Batool (@fatimabatool85) December 8, 2021
انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کا واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے ایک پدرانہ معاشرہ خواتین کو سبق سکھاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویے پر نظرثانی کریں۔
ٹوئٹر پر شیری نامی ایک صارف نے لکھا کہ فیصل آباد واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز دیکھیں۔ ایک خاتون نے اپنے کپڑوں کو پھاڑ دیا تھا، وہاں کھڑے لوگوں کو اس پر چادر ڈالنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ مینارِ پاکستان سے لے کر اس واقعے تک سمجھ نہیں آرہا کہ اس سال کیا ہو رہا ہے۔
Saw the cctv footages of #Faisalabad incident, one women was literally tore apart her clothes to play the woman/victim cardPeople standing there should%27ve cover her with some chaddarI%27m unable to understand what is happening this year from Minar-i-Pakistan incident to this1
— SherY (@SherySyed2) December 8, 2021
خیال رہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر خواتین پر تشدد یا انہیں اس طرح بے لباس کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ٹک ٹاکر کے ساتھ مبینہ طور پر دست درازی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں درجنوں افراد کی جانب سے ایک خاتون سے بدسلوکی کی گئی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس پر سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
مذکورہ واقعے میں پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔