مینارِ پاکستان واقعے پر پنجاب حکومت نے پولیس افسران سمیت چھ اہل کاروں کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو واقعے سے متعلق ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام نے فرائض میں غفلت برتی ہے۔ رپورٹ میں ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) انعام غنی نے 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں مینارِ پاکستان پر خاتون سے پیش آنے والے واقعے کی ابتدائی رپورٹ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو پیش کی تھی۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت لاہور میں ہونے والے اجلاس میں مینارِ پاکستان پر خاتون سے دست درازی اور لاہور میں گزشتہ دنوں میں پیش آنے والے دیگر واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والے معاملے اور دیگر واقعات پر پولیس کی کارروائی میں تاخیر اور فرائض سے غفلت برتنے پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاتون سے دست درازی اور دیگر واقعات کے حوالے سے پولیس کی کارروائی سست رہی ہے۔
رپورٹ کی روشنی میں ڈی آئی جی آپریشنز کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے جب کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ایس پی کو عہدوں سے ہٹانے کی سفارش کی گئی جس کے بعد دونوں افسران کو سی پی او آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں گریٹر اقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
واقعے کے بعد ردِ عمل (رسپانس) میں تاخیر اور فرائض سے غفلت برتنے پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او لاری اڈہ کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب نے مینارِ پاکستان پر پیش آنے والے واقعے کے ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کے حوالے سے، جب کہ سیکریٹری ہاؤسنگ نے گریٹر اقبال پارک میں محکمہ باغات کی سیکیورٹی کی ذمہ داریوں اور مبینہ غفلت کے بارے میں ابتدائی رپورٹ سے آگاہ کیا۔
متاثرہ خاتون کی میڈیکل رپورٹ
گریٹر اقبال پارک میں ہراساں کی جانے والی خاتون کی میڈیکل رپورٹ کو بھی آئی جی پولیس کی پیش کردہ ابتدائی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون کے جسم پر سوزش اور زخموں کے نشانات پائے گئے ہیں۔
طبی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ثابت نہیں ہوئی البتہ تشدد کی تصدیق ہوئی ہے اور جسم پر تشدد کے 13 نشانات واضح ہیں جب کہ جسم پر نیل نشانات بھی موجود ہیں۔
گرفتاریاں اور تحقیقات
پولیس کے مطابق واقعے میں زیر حراست 20 افراد کو تفتیش کے لیے سی آئی اے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق تمام افراد کو مینار پاکستان سے ملحقہ علاقوں سے حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون سے ملزمان کی شناخت بھی کرائی جائی گا۔
مینارِ پاکستان پر پیش آنے والا واقعہ منظرِ عام پر آنے کے بعد حکومتِ پنجاب نے چار تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دیں تھی۔ ان ٹیموں نے معاملے کی تفتیش کے لیے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا تھا جب کہ نادرا کی مدد سے 15 افراد کی شناخت کی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق ملزمان کی شناخت کے لیے فرانزک ٹیموں کی بھی مدد لی گئی ہے۔
لاہور میں 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں درجنوں افراد کا ایک خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ ویڈیو میں ہجوم کو خاتون سے دست درازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔