پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ان کے خلاف کیس وزیراعظم نے بنوایا۔ عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن پر دباؤ ڈالا۔ ان کے انکار پر فیصل آباد کے تمام ترقیاتی کاموں کو کھنگالا گیا۔ ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد ہیروئن برآمدگی کا جھوٹا کیس بنایا گیا۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وہ اپنے خلاف کیس کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے۔ وہ پارلیمنٹ سے مطالبہ کریں گے کہ اس معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنا کر حقائق جمع کئے جائیں۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایک وزیر اور اے این ایف کے ڈی جی نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی۔ حکومت نے اپنے آپ کو میرے خلاف مدعی بنا لیا۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جولائی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان پنجاب اسمبلی کا منحرف گروپ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ انہوں نے اسے ناکام بنا دیا جس کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کے خلاف ہیروئین برآمدگی کا کیس بنایا۔ انسداد منشیات کی عدالت میں جب ان کی ضمانت ملنے والی تھی تو جج کا واٹس ایپ میسیج کے ذریعے تبادلہ کر دیا گیا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مجھے ایسی جیل میں رکھا جو عقوبت خانہ تھا۔ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا اور میں وہاں فرش پر سوتا رہا۔ میرے خاندان کے سوا چھ ماہ تک کسی سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اے این ایف نے اپنے گودام سے ہیروئن نکال کر مجھ پر ڈالی۔ اس کیس کے تمام گواہ سرکاری ملازم ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ انہوں نے ویڈیو کی بات کی کہ میں نے بریف کیس سے انہیں ویڈیو دی۔ اگر ایسا ہے تو وہ ویڈیو کہاں ہے؟ حکومت اپنے موقف سے بار بار پھرتی رہی۔ کبھی ویڈیو، کبھی فوٹیج اور پھر نیٹ ورک کی بات کی لیکن چھ ماہ میں کوئی ثبوت نہ لاسکے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ مشکوک کیس ہے۔ اس کیس میں تفتیش نہیں ہوئی اور میرا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
رانا ثناء اللہ نے اس تاثر کی نفی کی کہ پارٹی قیادت نے ان کے کیس میں زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے ان کی گرفتاری کے اگلے دن ان کے گھر پریس کانفرنس کی۔ پارٹی ارکان نے اسمبلی میں ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔