رانا ثناءاللہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

فائل فوٹو

پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کو منشیات برآمدگی کے الزام میں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔

منگل کو انسداد منشیات فورس یعنی 'ایے این ایف' کی جانب سے رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ کو ضلع کچہری لاہور میں جوڈیشل مجسٹریٹ احمد وقاص کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے دوران رانا ثناء اللہ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل پر سیاسی کیس بنا کر گرفتاری ڈالی گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے وکیل نے بتایا کہ اے این ایف کے پاس کوئی ثبوت نہیں اس لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا نہیں کی۔

رانا ثناء اللہ نےعدالت میں بیان دیا کہ گزشتہ روز لاہور داخلے کے وقت ٹول پلازہ پر اے این ایف حکام نے ان کی گاڑی روکی اور تلاشی لی، جس کے کچھ دیر بعد اِنہیں بتایا گیا کہ انکی گاڑی سے بیگ ملا ہے جس سے منشیات ملی ہیں جو سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے این ایف حکام نے جھوٹ پر مبنی مقدمہ درج کیا ہے۔

اے این ایف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رانا ثنا اللہ کو گزشتہ روز گرفتار کیا گیا اور ان سے منشیات برآمد ہوئی۔ اے این ایف نے بتایا کہ رانا ثنا اللہ کو بعض دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت سے رانا ثنا اللہ سمیت دیگر چھ ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی گئی۔

عدالت نے تمام ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد رانا نثا اللہ سمیت دیگر ملزموں کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور ہدایت کی کہ ریمانڈ ختم ہونے پر ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے اے این ایف کو مقدمے کا چالان بھی پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اینٹی نارکوٹکس فورس لاہور کی ٹیم نے گزشتہ روز راناء ثنا اللہ کے خلاف دائر مقدمے میں اُن کی گاڑی سے 21 کلو گرام سے زائد منشیات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس میں پندرہ کلو ہیروئن بھی شامل ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق رانا ثناء اللہ کے خلاف خصوصی اطلاع پر کارروائی کی گئی اور جب انہیں روکا گیا تو انہوں نے اے این ایف اہل کاروں کے ساتھ ہاتھا پائی کی. وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے منشیات اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

رانا ثناءاللہ کی گرفتاری پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کہتے ہیں کہ عمران خان مہنگائی، ہڑتالوں, ظالمانہ بجٹ اور مہنگائی سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ایسے ہتھکنڈوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔

رانا ثناءاللہ کو جیل بھیجے جانے اور لاہور میں پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ رانا ثناءاللہ کی گرفتاری عمران نیازی کا مخالفین کے خلاف ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا عمل ہے۔ عمران خان اداروں کو استعمال کر کے اُنہیں متنازع بنا رہے ہیں۔

“رانا ثنااللہ نے بطور وزیر قانون دس سال کام کیا۔ اِس دوران بے شمار منشیات کے اڈوں پر خود ریڈ کروائے۔ رانا ثناءاللہ کو نیازی بدترین اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے ہیروئن فروش کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا‘‘۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رکن پنجاب اسمبلی فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں رانا ثناءاللہ پر کالعدم تنظیموں، منشیات فرشوں، جرائم پیشہ افراد اور قبضہ گروپوں سے تعلقات کا الزام پہلے بھی لگتا رہا ہے۔ ریاست مدینہ میں چوروں اور لٹیروں کو پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔ ریاست مدینہ میں منشیات فروشوں کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ رانا صاحب حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مارے گئے ہیں۔

“رانا ثناءاللہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کی سرپرستی میں کونسا ایسا جرم ہے جو نہیں کیا۔ اے این ایف کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے۔ اے این ایف نے رنگے ہاتھوں رانا ثناءاللہ کو 15 کلو ہیروئن کے ساتھ گرفتار کیا ہے۔ رانا صاحب کا اعتماد تھا کہ وہ بڑے ڈان ہیں مجھ پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ وہ مشہور آدمی ہیں۔ منتخب نمائندے ہیں۔ اُن پر پولیس اور انتظامیہ ہاتھ نہیں ڈالے گی”۔

اینٹی نارکوٹکس فورس لاہور کی ٹیم نے گزشتہ روز رانا ثناءاللہ کے خلاف دائر مقدمے میں اُن کی گاڑی سے 21 کلو سے زائد منشیات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا جس میں مبینہ طور پر 15 کلو ہیروئن بھی شامل ہے۔ اے این ایف کے ڈپٹی ڈائریکٹر عزیز اللہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق مخبری پر ان کی ٹیم نے رانا ثناء اللہ کی لینڈ کروزر کو لاہور کے نزدیک موٹر وے پر روکا اور تلاشی لینے پر ن لیگی رہنما نے گاڑی میں نیلے رنگ کے سوٹ کیس میں ہیروئن کی موجودگی کا اعتراف کیا۔

اے این ایف کی جانب سے رانا ثناءاللہ کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نائن سی، سی این ایس اے 1997 کی 353 پی پی سی اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان دفعات کے تحت ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جا سکتی ہے۔

ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ذیشان خالد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت رانا صاحب کو کیا سزا دیتی ہے اِس پر ابھی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ اُنہیں جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ذیشان چوہدری نے بتایا کہ پاکستان کے قانون میں 10 کلو سے زائد منشیات ثابت ہونے پر سزا سزائے موت ہے۔

“رانا ثناءاللہ کے خلاف لگائی گئی دفعات میں پانچ سی جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ہے اور یہ اُس وقت دی جاتی ہے جب کسی شخص کے خلاف دس کلو گرام سے زائد منشیات رکھنے کا جرم ثابت ہو جائے۔ کارِ سرکاری مداخلت کے تحت لگائی گئی دفعہ پی پی سی 186 کے تحت تین ماہ قید ہو سکتی ہے، جب کہ دیگر دفعات 257، 258 اور 353 کے تحت پاکستان پینل کوڈ میں لکھی گئی سزا دو سال قید اور جرمانہ ہے۔”

ایف آئی آر کے مطابق رانا ثناءاللہ کے محافظین کی اے این ایف کی ٹیم سے ساتھ ہاتھا پائی شروع ہو گئی اور امن و امان کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملزمان کو حراست میں لے کر اے این ایف کے تھانے پہنچا دیا گیا۔ وہ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے منشیات اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

حزب اختلاف کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر

قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ رانا ثناءاللہ ایک مضبوط آدمی ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی

کہ حکومت چاہتی کیا ہے

’’ایک بندہ جو حکومت مخالف ہے۔ ُاس پر ماضی میں ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔ وہ

منشیات کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے‘‘۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ٹول پلازوں پر پولیس

ہوتی ہے، لیکن اِس کے باوجود اِس واقعہ کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ کوئی فوٹیج نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں ہے اور ایک فرضی کہانی کے ذریعے اُن پر الزام لگایا گیا۔

قمر زمان کائرہ سمجھتے ہیں کہ رانا ثناءاللہ کو ایسی باتوں سے دبایا نہیں جا سکے

گا۔

“ایسے جرائم جن کی بڑی خوفناک سزائیں ہوتی ہیں یہ عقلی دلیل نہں ہے کہ رانا

ثناءاللہ نے ایسا کیا ہو باقی فیصلہ عدالت کرے گی۔ رانا ثناءاللہ کو دی گئی سرکاری سیکورٹی پانچ روز قبل واپس لے لی گئی۔ اگر سرکاری گارڈ ہوتے تو سرکاری گواہ ہوتے۔کہا جاتا ہے رانا ثناءاللہ کے منشیات فروشوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ وہ رابطے پکڑے گئے نہ ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا بلکہ اُنہیں جیل بھیج دیا گیا”۔

اطلاعات کے مطابق رانا ثنااللہ نے چند روز قبل اسلام آباد میں چند صحافیوں کو بتایا

تھا کہ اُنھیں بہت جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ تاہم، اُنھوں نے کسی مقدمے کی نشاندہی نہیں کی تھی۔

رانا ثناءاللہ کو اِس سے قبل بھی سابق فوجی حکم پر ان پرویز مشرف کے دور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ رانا ثناءاللہ کے بقول، دوران حراست اُن پر تشدد کیا گیا اور اُن کی مونچھیں اور بھنویں مونڈ دی گئی تھیں۔

رانا نثا اللہ کی ضلع کچہری میں پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ لاہور کی ضلع کچہری کو جانے والے راستے کو کنٹینرز کھڑے کر کے بند کر دیا گیا تھا اور غیر متعلقہ افراد کے ضلع کچہری میں جانے پر پابندی تھی۔

رانا ثناءاللہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 106 سے رکن اسمبلی ہیں اور وہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کے ذاتی حکم اور ایما پر رانا ثنا اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم، حکومت میں شامل عہدیدار اس الزم کو مسترد کرتے ہیں۔

اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کو ایفرڈین کیس میں عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔