اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیر کو نواز شریف کی پیشی کے دوران رینجرز اہلکاروں کی جانب سے وفاقی وزرا کو عدالت میں داخل نہ ہونے دینے پر وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو نواز شریف جب احتساب عدالت پہنچے تو سکیورٹی پر تعینات رینجرز اہلکاروں نے ان کے ہمراہ موجود وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر مملکت طلال چودھری سمیت کئی وفاقی وزرا، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور صحافیوں کو عدالت کے احاطے میں جانے سے روک دیا جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے برہمی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’کٹھ پتلی‘‘ وزیر نہیں ہیں۔
وزیرداخلہ نے رینجرز اہلکاروں سے اپنا تعارف کرایا لیکن اس کے باوجود انہیں احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس موقع پر وزیرِ داخلہ کی رینجرز اہلکاروں کے ساتھ بحث بھی ہوئی جس میں احسن اقبال نے اہلکاروں سے کہا کہ وہ وزیرِ داخلہ ہیں اور رینجرز ان کے ماتحت ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ کس نے رینجرز کو یہاں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے؟
وزیرِ داخلہ نے اہلکاروں سے پوچھا کہ رینجرز کو کون کمانڈ کررہا ہے لیکن کوئی افسر ان کے سامنے نہیں آیا۔
اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر اس صورتِ حال کا جواب نہ دیا گیا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے کیوں کہ وہ کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیر داخلہ ہیں اور اگر ان کے ماتحت رینجرز کسی اور کے احکامات پر کارروائی کریں گے تو بہتر ہے کہ وہ اپنا عہدہ ہی چھوڑ دیں۔
احسن اقبال نے بتایا کہ کمرۂ عدالت میں جگہ محدود ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد کے چیف کمشنر نے یہ طے کیا تھا کہ کچھ صحافیوں کو پاس جاری کیے جائیں گے تاکہ وہ کمرہ عدالت میں جاسکیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے ساتھ جانے والے ان کے ساتھیوں کی فہرست پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن صبح یکا یک صورت حال تبدیل ہوگئی اور چیف کمشنر نے انہیں مطلع کیا کہ اچانک رینجرز نمودار ہوئے ہیں اور انہوں نے عدالت کی سکیورٹی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں رینجرز چیف کمشنر کے ماتحت ہیں جبکہ رینجرز کے کمانڈر نے چیف کمشنر کو بتایا کہ انہیں احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ نواز شریف کے علاوہ کسی کو عدالت کے اندر جانے نہ دیں۔
وزیر داخلہ احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ عدالتیں بند کمرے میں نہیں لگائی جاسکتیں اور ایسا صرف آمرانہ ادوار میں ہوتا ہے۔ جمہوری حکومتوں میں آئین اور قانون کے تحت شفاف ٹرائل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہر شہری اور میڈیا کا بنیادی حق ہے کہ وہ ٹرائل کا مشاہدہ کرسکیں۔
وزیر داخلہ نے اس صورت حال کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں بحیثیت وزیر داخلہ اس صورت حال کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں اور جب انہیں کہیں تعینات کیا جاتا ہے تو وہ سول انتظامیہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اگر رینجرز نے سول انتظامیہ اور چیف کمشنر کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ہے تو اس کی اعلیٰ ترین سطح پر نہ صرف انکوئری ہوگی بلکہ اس بات کو بھی دیکھا جائے گا کہ حکومت کی رٹ کو کس نے چیلنج کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں مذکورہ معلومات کا جائزہ لینے کے لیے خود عدالت پہنچا تھا تاہم 15 منٹ تک رینجرز کے مقامی کمانڈر کو طلب کیے جانے کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے اور 'روپوش' ہوگئے جو قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کسی نے ایسا کام کیا ہے اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ریاست کی رٹ کیا ہے، اور سول انتظامیہ کی رٹ کیا ہے تو میں وزیر داخلہ کے عہدے سے مستعفی ہوجاؤں گا۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بھی رینجرز کی اس کارروائی پر کڑی تنقید کی جارہی ہے اور صحافی بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ پتا کرایا جائے کہ کس کے حکم پر رینجرز نے ان صحافیوں کو عدالت میں داخلے سے روکا جنہیں عدالت خود پاس جاری کرچکی تھی۔